مناسبت سے ایک بات پر تنبیہ بیان کرتے ہیں وہ یہ کہ:
پہلی قسم کی توجیہ جسے ہروی نے ذکر کیا ہے۔ یہ انبیاء اور رسولوں کی لائی ہوئی توحید ہے۔ اسی کو لے کر آسمانی کتابیں اتری ہیں ۔ اسی توحید کے ساتھ رب تعالیٰ نے اولین و آخرین کے رسولوں کو مبعوث فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاسْاَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُعْبَدُوْنَo ﴾ (الزخرف: ۴۵)
’’اور ان سے پوچھ جنھیں ہم نے تجھ سے پہلے اپنے رسولوں میں سے بھیجا، کیاہم نے رحمان کے سوا کوئی معبود بنائے ہیں ، جن کی عبادت کی جائے؟‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ﴾ (النحل: ۳۶)
’’اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو، پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جنھیں اللہ نے ہدایت دی اور ان میں سے کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہو گئی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo﴾ (الانبیاء: ۲۵)
’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔‘‘
رب تعالیٰ پر رسول جیسے حضرت نوح، ہود، صالح اور شعیب علیہم السلام وغیرہ کے بارے میں اس بات کی خبر دی ہے کہ انھوں نے اپنی اپنی قوم سے یہ کہا تھا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو، اس کے کوئی تمھارا کوئی معبود نہیں ۔ یہی سب سے پہلے رسول کی دعوت تھی تو یہی خاتم الانبیاء و الرسل علیہم السلام کی بھی دعوت تھی۔ ایک صحیح اور مشہور حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرتا رہوں ۔ یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ پس جب وہ یہ شہادت دے لیں گے تو انھوں نے اپنی جانوں اور مالوں کو مجھ سے محفوظ کر لیا مگر ان کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔‘‘[1]
اور فرمایا: ’’جو اس حال میں مر گیا کہ وہ اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ جنت میں
|