’’اور یہ کہ بے شک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنo﴾ (الفاتحۃ: ۶۔۷)
’’ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِجْتَبٰیہُ وَ ہَدٰیہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍo﴾ (النحل: ۱۲۱)
’’اس نے اسے چن لیا اور اسے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo﴾ (الفتح: ۲)
’’اور تجھے سیدھے راستے پر چلائے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓئُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ﴾ (البقرۃ: ۲۵۷)
’’اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے دوست باطل معبود ہیں ، وہ انھیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لاتے ہیں ۔‘‘
غرض یہ بات کتاب اللہ کے مطابق ہے کہ مطلق اختلاف مذموم ہے بخلاف مقید اختلاف کے کہ اس کے بارے میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا﴾ (البقرۃ: ۲۵۳)
’’اور لیکن انھوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے کوئی تو وہ تھا جو ایمان لایا اور ان سے کوئی وہ تھا جس نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے۔‘‘
یہ بات واضح ہے کہ یہ اختلاف اہل حق اور اہل باطل کے درمیان ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
|