Maktaba Wahhabi

546 - 645
جنگ صفین کے بارے میں علمائے کرام کے کئی اقوال ہیں : ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ : ’’ ان دونوں فریقوں میں سے ہر فریق مجتہد تھا‘اور ان کا اجتہاد اپنی جگہ پر درست تھا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ دونوں حضرات مجتہد تھے۔یہ اکثر اشاعرہ ‘ کرامیہ اور دیگر فقہاء کا قول ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک گروہ اور امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ کرامیہ کہتے ہیں : ان میں ہر ایک حق پر تھا؛ اور بوقت ضرورت دو امیر مقرر کرنے جائز ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ : ان دو میں سے ایک گروہ حق پر تھا ۔ مگر وہ اس گروہ کو متعین نہیں کرتے۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : ’’ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے ‘ مگر غلطی پر تھے۔ مذاہب اربعہ کے فقہاء اور اہل کلام میں سے بعض گروہوں کا یہی مسلک ہے ۔ یہ تینوں اقوال ابو عبداللہ بن حامد نے امام احمد کے ساتھیوں سے نقل کیے ہیں ۔ ان میں سے بعض یہ بھی کہتے ہیں : ’’ حق تو یہ تھا کہ ان کے مابین جنگ نہ ہوتی ۔ جنگ کا ترک کرنا دونوں گروہوں کے حق میں بہتر تھا۔ اس لیے کہ جنگ میں کوئی بھی اصابت نہیں ہوتی۔ مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہ نسبت حق کے زیادہ قریب تھے۔ یہ قتال قتال ِ فتنہ تھا‘ نہ ہی واجب تھا اور نہ ہی مستحب ۔ اس قتال کا ترک کرنا ہی دونوں گروہوں کے حق میں بہتر تھا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق کے زیادہ قریب تر تھے۔یہ قول امام احمد اور اکثر اہل حدیث اوراکثر ائمہ فقہاء کا ہے۔اور یہی قول بہت سارے اکابر صحابہ کرام اور تابعین کا ہے۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ آپ لوگوں کو اس جنگ میں اسلحہ بیچنے سے منع کیا کرتے تھے۔ آپ کہتے تھے کہ : یہ فتنہ میں اسلحہ کی فروخت ہے ۔ یہی قول حضرت اسامہ بن زید ‘ محمد بن مسلمہ ‘ ابن عمر ‘ سعد بن ابی وقاص ؛ اور باقی زندہ رہنے والے اکثر سابقین اولین اور مہاجرین وانصار رضی اللہ عنہم کا قول ہے۔ اس لیے اہل سنت و الجماعت کا مذہب اور عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بپا ہونے والی لڑائیوں کے بیان کرنے سے اپنی زبانوں کو روک کر رکھا جائے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ثابت شدہ ہیں اور ان سے دوستی اور محبت رکھنا واجب ہے ۔ ان کے مابین جوکچھ ہوا اس کا ایسا عذر بھی ہوسکتا ہے جو انسان پر مخفی رہا ہو۔اور ان میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی اس لغزش سے توبہ کرلی تھی۔اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے گناہ معاف کردیے گئے ہیں ۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے جھگڑوں میں پڑنے سے انسان کے دل میں بغض و مذمت پیدا ہوتی ہے۔ اور اس معاملہ میں وہ صرف غلطی پرہی نہیں بلکہ اس معاملہ میں عاصی و گنہگار بھی ہوتا ہے۔ اس طرح یہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے ان ساتھیوں کو بھی نقصان پہنچاتا ہے جن کے ساتھ ایسے معاملات میں گفتگو کرتا ہے۔ جیسا کہ ان اکثر لوگوں کیساتھ یہ معاملہ پیش آچکا ہے جو اس موضوع کو اپنے لیے مشق سخن بنایا کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان لوگوں نے ایسی باتیں کی تھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے ہاں نا پسندیدہ تھیں ۔ اس کی وجہ یا توان لوگوں کی مذمت کرنا ہے جو مذمت کے مستحق نہیں ہیں ۔ یا پھر ایسے امور کی مدح کرنے کی وجہ سے جو مدح کے قابل نہیں ۔
Flag Counter