حق یہ ہے کہ آپ نے خلوص دل سے توبہ کی تھی۔ اسی طرح جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ میں کفار کے ساتھ مصالحت کی تو صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اونٹوں کو نحر کیجیے اورسر منڈائیے۔‘‘یہ حکم سن کر جب کوئی صحابی نہ اٹھا؛تو آپ ناراض ہو کر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ تو انھوں نے کہا: جس نے آپ کو ناراض کیا اﷲ اسے ناراض کرے۔ آپ نے فرمایا:
’’میں کیوں کر ناراض نہ ہوں میں ایک حکم صادر کرتا ہوں اور کوئی شخص اس کی اطاعت نہیں کرتا۔‘‘
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: حضرت!آپ اپنی قربانی منگوا کر ذبح کیجیے، اور حجام کو طلب کرکے سر منڈوایے۔ دوران صلح آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دستاویز سے اپنا نام محو کرنے کا حکم دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’اﷲ کی قسم! میں آپ کا نام نہیں مٹاؤں گا۔‘‘چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دستاویز لے کر اپنا نام مٹا دیا۔[1]
ظاہر ہے کہ مذکورہ واقعات میں ارشادنبوی کی تعمیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کا اس حد تک پس و پیش کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے۔اگریہ کسی کے نزدیک گناہ ہو تو جو جواب اس کا ہے وہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کا جواب ہے۔
بعض لوگ تاویل کی پناہ لے کر کہتے ہیں کہ صحابہ نے تعمیل ارشاد میں اس لیے دیر لگائی کہ ان کو مکہ میں داخل ہونے کی امید تھی۔ دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر اس میں تاویل کی گنجائش ہوتی تو آپ کے برہم ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ بخلاف ازیں صحابہ نے بارگاہ ایزدی سے اس تاخیر کی معافی طلب کی تھی۔حالانکہ بلا توبہ، اعمال صالحہ سے بھی ایسے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تاخیر کرنے والوں میں شامل تھے۔(رضی اللہ عنہم )
[دوسرا اعتراض]: ....شیعہ مصنف نے جو ایک روایت نقل کی ہے ؛ جس میں [حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہاگیا ہے] :
’’ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑو گی اوراس پر ظلم کرنے والی ہوگی۔‘‘
جواب :[یہ روایت صریح کذب ہے]حدیث کی کسی بھی معتمد کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔اور نہ ہی اس روایت کی کوئی معروف سند ہے۔بلکہ یہ ان موضوع روایات میں سے ہے جو اپنی طرف گھڑ لی گئی ہیں ۔اور انہیں صحیح احادیث کے مشابہ بنادیا گیاہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے نہیں نکلی تھیں اور نہ ہی آپ کی نیت جنگ کرنے کی تھی۔ بلکہ مسلمانوں کے مابین صلح کرانے کے جذبہ سے باہر نکلی تھیں ۔[2]ان کا خیال
|