’’بعض منافق صدقات کے متعلق آپ پر طعن کرتے ہیں ، اگر صدقات مل گئے تو خوش، ورنہ ناخوش اور اگر وہ اﷲ کے عطا کردہ مال پر رضا مندی کا اظہار کرتے، اور یوں کہتے کہ اﷲتعالیٰ ہمارے لیے کافی ہے اور وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے دیتا رہے گا؛اور اس کا رسول، ہماری رغبت صرف بارگاہ ربانی کی جانب ہے ۔‘‘
اس آیت میں منافقین کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ دیے جانے کی صورت میں خوش ہوتے ہیں اور اگر نہ دیا جائے تو غیظ و غضب کا اظہار کرنے لگتے ہیں ، منافقین کی زندگی کا یہی پہلو ان کی مذمت کا موجب ہوا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ جو شخص اسی خصوصیت کی بنا پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح سرائی کرتا ہے، جس کی مذمت بیان کی گئی ہے تو وہ بلاشبہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ روافض نے اہل بیت کی شان میں جو گستاخیاں کی ہیں اور جس طرح ان کی زندگیوں کو داغ دار کرنے کی کوشش کی ہے،وہ کسی بھی اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے ۔ اہل بیت کی جانب سے اﷲتعالیٰ ہی اس کا انتقام لے گا۔
[اشکال ]:اگر کوئی شخص یہ کہے:سیدہ فاطمہ اپنا حق طلب کرنے آئی تھیں اور حق کا مطالبہ کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ۔‘‘
[جواب]: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تو یہود و نصاری تک کے حقوق ادا کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے، بھلا آپ سیدۃ النساء سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق ادا کرنے سے کیوں کر انکار کر سکتے تھے؟، مزید برآں اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنا مال اﷲ کی راہ میں صرف کیا کرتے تھے، پھر آپ لوگوں کے حقوق اداکرنے سے کیوں کر باز رہ سکتے تھے۔ [1]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مال کا مطالبہ کیا تھا؛اور آپ اسے پورا نہ کر سکے۔ بخاری و مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بارگاہ نبوت میں خادم طلب کرنے آئیں اور آپ نے خادم عطا کرنے کی بجائے ان کوتسبیح کے کلمات پڑھتے رہنے کی تلقین فرمائی۔[2]
|