سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے فرمایا تھا :
’’ سوال کرنا ہو تو صرف اﷲ سے کیجئے،اور اگر مدد طلب کرنا ہو تو اﷲ سے کیجئے۔‘‘[1]
آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھ سے سوال کیجئے یا مجھ سے طلب امداد کیجئے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ﴾ (الانشراح:۷۔۸)
یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ جب کوئی شخص حاکم سے مال طلب کرے اور غیر مستحق ہونے کی بنا پر حاکم اس کا مطالبہ پورا نہ کرے اس پر مزید یہ کہ حاکم اس مال کو اپنے عزیز و اقارب پربھی صرف نہ کر رہا ہو بلکہ حسب موقع و مقام سب مستحق مسلمانوں کو دیتا ہو۔[2] پھر کہا جائے کہ وہ طالب ِمال حاکم سے بگڑ گیا۔ تو ظاہر ہے کہ اس کی ناراضگی کا موجب صرف یہ امر ہے کہ حاکم نے اس کو مال نہ دیا اور یہ کہہ دیا کہ دوسرے لوگ اس کی نسبت اس مال کے زیادہ مستحق ہیں ۔ اس ناراضگی میں طالب مال کے لیے مدح و ستائش کا کوئی پہلو باقی نہیں رہتا اگرچہ طالب مظلوم بھی ہو۔ تا ہم اس کی ناراضگی صرف دنیوی مال کی خاطر ہے۔ اس صورت میں طالب مال کو متَّہم کرنا حاکم کو مطعون قرار دینے کی نسبت اقرب الی الصحت ہے۔ خصوصاً جب کہ حاکم یہ مال خود نہیں لے رہا اور طالب مال اسے خود اپنی ذات کے لیے حاصل کرنے کے درپے ہے۔ حاکم واشگاف الفاظ میں کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مجھے مال دینے سے مانع ہے، میرے لیے یہ کیوں کر روا ہے کہ مستحق سے مال لے کر غیر مستحق کو دے دوں ؟ طالب مال اس کے سوا آخر کیا کہہ سکتا ہے کہ میری ناراضگی کا باعث صرف قلیل مال ہے دگر ہیچ۔
جو شخص سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے متعلق ایسا واقعہ بیان کر کے اسے ان کی مدح پر محمول کرتا ہے، اس کا جاہل ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے، اﷲتعالیٰ منافقین کی مذمت ان الفاظ میں فرماتے ہیں :
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ o وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ﴾ (التوبہ: ۵۸۔ ۵۹)
|