ہیں ؛ظاہر ہے کہ یہ معاملہ اہل سنت و شیعہ سے متعلق نہیں سوائے اس کے کہ حق کی وضاحت کر کے اہل حق کی موالات کی جائے۔ہم دلائل قاہرہ کی روشنی میں یہ صداقت واضح کر سکتے ہیں کہ اس امت میں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر نہ کوئی عدل و انصاف کے تقاضوں پر عمل کر سکا اور نہ ظلم سے کنارہ کش رہا، ہم آگے چل کر یہ حقیقت واضح کریں گے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ صرف آپ ہی امامت و خلافت کے منصب پر فائز ہیں [1] اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو یہ مرتبہ حاصل نہ تھا۔
اگر شیعہ کہیں کہ ہم ان ملوک و سلاطین کے ظلم سے داد رسی چاہتے ہیں جنہوں نے ائمہ شیعہ کو امامت و خلافت کے حقوق سے محروم رکھا تو ہم ان سے دریافت کریں گے کہ کیا ائمہ شیعہ نے خلافت کا مطالبہ کیا تھا؟ یا وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معصوم امام ہیں ؟ یہ ان پر صریح بہتان ہے، بہر کیف ! سچ ہو یا جھوٹ؛ اگر ان کا آپس میں واقعی کوئی ایسا جھگڑا تھا تو اﷲتعالیٰ بروز قیامت اس کا فیصلہ فرمائیں گے۔قرآن کریم میں فرمایا:
﴿قُلِ اللّٰہُمَّ فاطر السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ﴾ (الزمر:۳۶)
’’آپ فرمادیجئے!کہ اے اللہ !آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے کھلے کو جاننے والے تو ہی اپنے بندوں میں ان امور کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ الجھ رہے تھے۔‘‘
اگر وہ ان ملوک و سلاطین کے ظلم سے دادرسی چاہتے ہیں جن کے ساتھ وہ کسی ولایت یا مال کے بارے میں برسر جدل و نزاع تھے تو اس میں شبہ نہیں کہ اﷲتعالیٰ بروز قیامت سب متنازع فریقین کے مابین فیصلہ فرمائے گا،خود شیعہ کے مابین اتنے مخاصمات اور تنازعات پائے جاتے ہیں ؛ جو کہ اہل سنت اور کسی بھی دوسرے گروہ کے باہمی اختلافات سے کہیں زیادہ ہیں ۔ بنو ہاشم بھی باہم برسر پیکار رہ چکے ہیں ، بنو حسن و بنو حسین کے مابین اسی قسم کی لڑائیاں ہو چکی ہیں ، جو آج کل ان جیسے دوسرے لوگوں میں بپا ہیں ۔ پچھلے زمانوں میں بعض بنی ہاشم اور دوسرے لوگوں کے درمیان جو معرکے بپا
|