۳: اپنی طرف سے حلّت و حرمت:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس سنگین جھوٹ کی مذمت بیان فرمائی ہے ،ان میں سے دو کے حوالے سے ذیل میں تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
ا: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ إِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ۔ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ وَّ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ } [1]
[اور [ دیکھو] ایسانہ کرو ،کہ تمہاری زبانوں پر جو جھوٹی بات آجائے، بے دھڑک نکال دیا کرو اور حکم لگا دو، کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ چیز حرام ہے۔ اس طرح حکم لگانا اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرنا ہے اور (یاد رکھو) جو لوگ اللہ تعالیٰ پر افترا پردازیاں کرتے ہیں ، وہ فلاح پانے والے نہیں ، [یہ بات ] بہت معمولی فائدہ ہے،اور[آخر کار] ان ہی کے لیے درد ناک عذاب ہے۔]
قاضی ابو سعود اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں : {وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ} یعنی اپنی زبانوں سے جھوٹ بول کر اور اس کو سننے والے کے لیے مزین اور خوب صورت کر کے حلّت و حرمت کا حکم نہ لگاؤ، {لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ} کیونکہ حلّت و حرمت کا حکم تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور جب تم حلّت و حرمت کا حکم اپنی طرف سے لگا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہو ، تو اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف حلت و حرمت کی نسبت ہوتی ہے،
|