و: صحیح مسلم اور سنن النسائی میں ہی ہے: ’’فَارْدُدْہُ۔‘‘[1]
’’پس اسے واپس لو‘‘
ز: صحیح مسلم میں ہے: ’’فَرُدَّہ۔‘‘[2]
’’پس اسے واپس لو۔‘‘
مذکورہ بالا روایات کے حوالے سے قارئین کی توجہ درج ذیل چھ باتوں کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں:
۱: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں سے صرف ایک کو عطیہ دینے کو ظلم، نادرست اور خلافِ حق قرار دیا ہے۔
۲: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے درمیان عدم مساوات پر احتساب فرمایا۔
۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد کے معاملہ میں عدم مساوات کا باعث بننے والے عطیہ کو واپس لینے کا حکم دیا۔
۴: لفظ [اولاد] میں بیٹے اور بیٹی دونوں شامل ہوتے ہیں۔[3] علاوہ ازیں حافظ ابن حجر نے امام ابن سعد کے حوالے سے نقل کیا ہے، کہ بشیر رضی اللہ عنہ کا صرف ایک بیٹا نعمان رضی اللہ عنہ ہی تھا اور ان کے علاوہ ایک بیٹی ابیّہ تھی۔[4]
۵: بعض ائمہ کرام کی رائے میں عطیہ میں اولاد کے درمیان مساوات برقرار رکھنا مستحب ہے، واجب نہیں۔اگر کسی نے ایسا نہ کیا، تو اس کے مکروہ ہونے کے باوجود عطیہ دینا درست ہوگا۔
|