دے دیں، اور اہل دیوان(رجسٹرار و آڈیٹر) کا فرض ہے کہ وہ سلطان﴿ یعنی حکام﴾ کو وہ دے دیں جس کا دینا ان پر﴿فرض﴾ کیا گیا ہے، اسی طرح رعیت﴿عوام الناس﴾ پر فرض ہے کہ ان پر جو حقوق لازم کئے گئے ہیں ادا کر دیں، اور رعیت کے لیے یہ جائز نہیں کہ والیان ملک﴿یعنی حکام﴾ سے وہ ایسا مطالبہ کریں جس کا ان کو حق نہیں دیا گیا۔ اگر یہ مطالبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت آ جائیں گے: وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّلْمزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ ط فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْھَارَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطُوْا مِنْھَآ اِذَا ھُمْ یَسْخَطُوْنَ ، وَلَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتَاھُمُ اللّٰه وَرَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰه سَیُؤْتِیْنَا اللّٰه مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہ‘ اِنَّا اِلَی اللّٰه رَاغِبُوْنَ، اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسْاکِیْنَ وَ الْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰه وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰه وَااللّٰه عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ،(توبہ:58 تا 60) اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ زکوٰۃ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہیں، پھر اگر ان کو اس میں سے دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں، اور اگر اس میں سے ان کو نہ دیا جائے تو فوراً ہی بگڑ بیٹھتے ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیا تھا اگر یہ اس کو خوشی سے لے لیتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے، اور اب نہیں دیا تو کیا ہے، آئندہ اپنے کرم سے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو دیں گے ہم تو اللہ ہی سے لو لگائے بیٹھے ہیں، زکوٰۃ تو بس فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا، اور ان افسران کا جو زکوٰۃ وصول کرنے پر تعینات ہیں اور ان لوگوں کا جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا منظور ہے اور نیز قید و غلامی سے غلاموں کی گردنیں چھڑانے میں، اور قرضداروں کے قرض میں اور اللہ کی راہ میں، اور مسافروں کے زادِ راہ میں، یہ﴿مصارفِ زکوٰۃ﴾ اللہ کے فرض کیے ہوئے ہیں، اور اللہ خوب جاننے والا بڑا با تدبیر ہے۔ اور انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ سلطان﴿حاکمِ وقت﴾ کے وہ حقوق جو ان لوگوں پر واجب ہیں روک لیں۔ اور نہ دیں، اگر چہ سلطان ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، اور یہ |