اور افضل، اور علم و ایمان کے لحاظ سے بہت اچھے موجود ہوتے تھے۔ اسی طرح خلیفہ امیر المؤمنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے، فتنہء ارتداد جب کھڑا ہو گیا تو سیدنا خالدرضی اللہ عنہ کو ہی امیر لشکر بنایا تھا۔ اور فتوح عراق و شام میں بھی انہیں کو امیر و سالار بنا کر بھیجا تھا، حا لانکہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سے تا ویل کی بنیاد پر بعض ہفوات(یعنی غلطیاں) صادر ہوتی رہیں۔ اور کہا گیا ہے کہ ان ہفوات میں ان کی خواہش کو دخل تھا لیکن پھر بھی ان کو معزول نہیں کیا بلکہ عتاب کرکے چھوڑ دیا۔ اور مصلحت کو مفسدہ کے مقابلہ میں ترجیح دی، اور انہی کو باقی رکھا کہ کوئی دوسرا ان کاقائم مقام بن سکے ایسا نہیں تھا۔ علاوہ ازیں یہ کہ جب متولی کبیر(جنرل سیکرٹری)، خلیفہ، والی، امیر﴿حاکمِ وقت ﴾ کے خلق میں نرمی ہو تو اسکے نائب میں شدت و سختی ہونا چاہئے۔ اور اگر متولی کبیر(جنرل سیکرٹری) اور امیر میں سختی ہو تو نائب میں نرمی ہونی چاہئے تاکہ ایک کی سختی اور دوسرے کی نرمی سے اعتدال قائم رہے، اور اسی بناء پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو باقی اور قائم رکھنے پر مصر تھے۔ اس لیے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نرم دل نرم خو تھے، اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کو معزول کرنا چاہتے تھے اور ان کی جگہ ابو عبیدہ صبن جراح کو لانا چاہتے تھے، اس لیے کہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ میں سختی تھی جیسی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ میں سختی تھی اور سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نرم دل نرم خو تھے جیسے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اور اس وقت اصلح﴿بہتر﴾ وہی تھا جو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں لشکراسلام کے سپہ سالار رہے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لشکر اسلام کے والی﴿سپہ سالار﴾ سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح رہے۔ اور اس طرح معاملہ اعتدال پر رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے یہ فرمایا: اَنَانَبِیُّ الرَّحْمَۃِ اَنَا نَبِیُّ الْمَلْحَمَۃِ میں نبی رحمت(بھی) ہوں اور میں نبی ملحمہ(یعنی حرب و جنگ والا نبی بھی) ہوں ۔ اور آپ کا ارشاد ہے: اَنَا الضُّحُوْکُ الْقَتَّالُ وَ اُمَّتِیْ وَسْطٌ |