Maktaba Wahhabi

37 - 234
امانت(یعنی حکومت) میں خیانت کرتا ہے جو اس کے سپرد کی گئی ہے۔ اور پھر یہ کہ امانتدار(یعنی بااختیار افسر یا حاکم) اگر اپنی خواہش اور ھواء﴿یعنی غلط چاہت﴾ کی مخالفت کرے اور اللہ سے ڈرے تو اللہ تعالیٰ اُسے ثابت قدم رکھتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے، اس کے اہل و عیال اور مال کی اس کے بعد بھی حفاظت کرتا ہے، اور جو آدمی اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے، اور اس کے مقصد اور ارادوں کو توڑ دیتا ہے، اسکی اہل و عیال کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیتا ہے، اور اس کا وہ سارا مال﴿ضائع﴾ چلا جاتا ہے۔ اس بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے وہ یہ کہ خلفاء بنو عباس میں سے کسی نے بعض علماء کو کہا کہ کچھ حالات جو تمہا رے دیکھے ہوئے یا سُنے ہوئے ہوں لکھ دیں۔ اس نے کہا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو میں نے دیکھا ہے کسی نے ان سے کہا: امیر المومنین! اس مال کو آپ نے اپنے بیٹوں سے دور رکھا ہے اور اُنہیں فقیر و بے نوا چھوڑ دیا ہے، کوئی چیز آپ نے ان کے لیے نہیں چھوڑی۔ امیر المؤمنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ اس وقت مرض الموت میں مبتلا تھے، انہوں نے کہا اچھا میرے لڑکوں کو میرے سامنے لائو۔ لڑکے لائے گئے جو دس سے زیادہ تھے، اور سب کے سب نابالغ تھے۔ لڑکوں کو دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے، میرے بیٹو! جو تمہارا حق تھا وہ میں نے تم کو پورا پورا دے دیا ہے، کسی کو محروم نہیں رکھا اور میں لوگوں کا مال تم کو دے نہیں سکتا، تم میں سے ہر ایک کا مال یہ ہے کہ یا تو وہ صالح نیک بخت ہوگا تو اللہ تعالیٰ صالح اور نیک بندوں کا والی اور مددگار ہے۔ یا غیر صالح ہو گا اور غیر صالح کے لیے میں کچھ بھی چھوڑنا نہیں چاہتا کہ وہ اس مال کے ذریعہ اللہ تعا لیٰ کی معصیت﴿نافرمانی﴾ میں مبتلا ہو گا۔ قُوْمُوْا عَنِّیْ! بس سب جائو میں اتنا ہی کہنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے اُنہی عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی اولاد میں سے بعض کو میں نے دیکھا ہے کہ سو سو گھوڑے فی سبیل اللہ دیتے تھے کہ مجاہدین اسلام ان پر سوار ہو کر جہاد کریں۔ اس کے بعد اس نے کہا، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ خلیفۃ المسلمین تھے، اقصاء مشرق بلادِ ترک وغیرہ پر، اقصاء مغرب بلادِ اندلس وغیرہ پر قابض تھے، جزائر قبرص اور حدود شام اور طرسوس وغیرہ کے قلعوں پر حکومت و فرمانروائی کرتے تھے، یمن کی انتہائی سرحدوں میں جن کی حکومت پھیلی ہوئی تھی، باوجود اس
Flag Counter