تیسرا یہ کہ دیت و خون بہا لے کر چھوڑ دے۔ ان تین طریقوں کے علاوہ کوئی چوتھا راستہ اختیار کرے تو وہ زیادتی کر رہا ہے، اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے۔ اگر کوئی شخص معاف کر دے، معاف کرنے کے بعد یا دیت و خون بہا لینے کے بعد قاتل کو قتل کر دے تو یہ بہت بڑا جرم ہے، ابتداء قتل کرنے سے بھی بہت سخت جرم ہے، یہاں تک کہ بعض علماء کا قول ہے، اسے بطور حد قتل کیا جائے، اور مقتول کے اولیاء و ورثاء کو کوئی حق نہیںپہنچتا کہ اسے خود قتل کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَائٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذَالِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذَالِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ، وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَّآ اُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(بقرہ:179۔178) جو لوگ تم میں مارے جائیں ان میں تم کو جان کے بدلہ میں جان کا حکم دیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت۔ پھر جس کو اس کے بھائی سے قصاص کا کوئی جزء معاف کر دیا جائے، تو مطالبہ دستور شرع کے مطابق اور قاتل کی طرف سے وارثِ مقتول کو خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کر دینا یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے حق میں آسانی اور مہربانی ہے۔ پھر اس کے بعد جو زیادتی کرے تو اس کے لیے عذاب دردناک ہے، اور عقلمندو! قصاص(قتل کے بدلے قتل کر دینے) میں تمہاری زندگی ہے تاکہ تم(خونریزی سے) باز رہو۔ علماء کہتے ہیں: مقتول کے اولیاء و ورثاء کے قلوب غیظ و غضب سے بھرے ہوتے ہیں ان کا بس چلے تو قاتل اور قاتل کے اولیاء و ورثاء کو بھی قتل کر دیں۔ بسا اوقات ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ قاتل پر بس نہیں کرتے بلکہ قاتل کے ساتھ ہی ساتھ اس کے عزیزوں، قرابتداروں کو بھی قتل کر دیتے ہیں، قاتل کے قبیلہ کے سردار یا مقدم و پیشوا کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔ اور یہ نہایت خطرناک صورت ہے۔ اصل قاتل نے تو ابتداء میں ظلم کیا، لیکن مقتول کے اولیاء اور ورثاء نے خون کا بدلہ لینے میں جو ظلم و جور |