کا حکم دیتے ہیں مثلاً کوئی شخص لواطت پر اصرار کرے یا یہ کہ لوگوں کو تحصیل مال کے لیے دھوکہ اور فریب دیتا ہے تو اُسے قتل کرنا واجب ہے۔ اگر کسی مفسدہ کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ اس کے شر سے اس وقت تک نجات نہیں مل سکتی جب تک کہ اُسے قتل نہ کیاجائے تو اُسے قتل کر دیا جائے جیسا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں سیدنا عرفجہ الاشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے؛ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے﴿اس طرح﴾ سنا ہے۔ من اتاکم وامرکم علی رجل واحد یرید ان یشق عصاکم او یفرق فی جماعتکم فاقتلوہ جو شخص تمہارے پاس آئے اور تم سب ایک آدمی پر مجمتمع(یعنی تم ایک امیر کے تحت) ہو، اس کا ارادہ تمہاری جماعت میں پھوٹ ڈالنے کا ہو یا تمہاری جماعت کو پراگندہ کرنے کا ہو تو اُسے قتل کردو۔ اور دوسری روایت میں ہے : سیکون ھنات و ھنات فمن اراد ان یفرق امر ھذہ الامۃ و ھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائنا من کان پے در پے فتنے کھڑے ہوں گے؛ اس وقت کوئی آدمی اس اُمت میں پھوٹ ڈالنے کا ارادہ کرے اور تمہاری جمعیت کو توڑنا چاہے تو تم اُسے تلوار سے قتل کر ڈالو﴿چاہے وہ﴾ جو کوئی بھی ہو۔ یہی شراب نوشی کے متعلق کہاگیا ہے کہ جب بار بار کی تعزیر سے وہ باز نہیں آتا تو چوتھی مرتبہ میں اُسے قتل کر دو اور اس پر وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں جو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں سیدنا ویلم الحمیری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ سیدنا ویلم رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ایسی سرزمین سے آیا ہوں جہاں شراب سے بڑا کام نکلتا ہے اور اس سے علاج معالجہ کیاجاتا ہے، ہم قمح سے شراب بناتے ہیں جس سے ہم کو بڑی قوت ملتی ہے اور بڑی حدتک اپنے پیشہ میں کامیاب ہوتے ہیں، علاوہ |