بن حنبل رحمہ اللہ کے مذہب کی رو سے ہیں۔ اور پہلے دو قول امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کے مذہب کی رو سے۔ امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ سے منقول ہے کہ بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان میں حد نہیں ہے مگر تعزیر و سزا قتل کی بھی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے بعض شاگرد اس میں ان کے ہمنوا ہیں مثلاً مسلم جاسوس دشمنوں اور کفار سے ایسی جاسوسی کرے کہ مسلمانوں کو اس سے نقصان پہنچ رہا ہے تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کی تعزیر میں توقف کیا ہے لیکن امام مالک رحمہ اللہ اور بعض حنابلہ مثلاً ابن عقیلی رحمہ اللہ وغیرہ کہتے ہیں اس کو قتل کر دینا چاہیے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور بعض حنابلہ مثلاً ابو یعلی وغیرہ کہتے ہیں نہیں اُسے قتل نہیں کرنا چاہیے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے بعض شاگردوں کا قول ہے کہ اگر کوئی ایسی بدعت رائج کرے یا بدعت کی طرف دعوت دے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے تو اُسے قتل کر دیا جائے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے بہت سے شاگردوں کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ نے قدریہ کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے اور اس لیے یہ حکم دیا ہے کہ اس سے فساد فی الارض مقصود ہے نہ یہ کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے ہیں اس لئے۔ اور اسی طرح بعض نے جادوگر کوقتل کرنے کا حکم دیا ہے اور اکثر علماء نے بھی اُسے قتل کرنے کا حکم دیا ہے اور سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے موقوف اور مرفوع روایت ہے کہ حد الساحر ضربہ بالسیف(رواہ الترمذی) جادوگر کی حد اس کی گردن تلوار سے اُڑا دینا ہے۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، اُم المؤمنین سیدہ حفصہ، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کہتے ہیں ساحر﴿یعنی جادوگر﴾ کی گردن اڑا دی جائے۔ لیکن﴿یہ﴾ قتل کی وجہ اور علت مختلف بیان کرتے ہیں؛ بعض علماء اس لیے اُسے قتل کرنے کی تجویز کرتے ہیں کہ وہ کافر ہوجاتا ہے اور بعض علماء کہتے ہیں نہیں بلکہ فساد فی الارض کی وجہ سے قتل کیا جائے۔ لیکن جمہور علماء کہتے ہیں بربنائے حد جادوگر کو قتل کیا جائے۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان جرائم میں جن میں قتل واجب ہے ان جرائم کی تکرار پر تعزیر بالقتل |