نہیں ہے تو(کیا کیا جائے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَّھَا دَائٌ وَلَیْسَتْ بِدَوَائٍ وَاِنَّ اَللّٰه لَمْ یَجْعَلْ شِفَائَ اُمَّتِیْ فِیْمَا حَرَّمَ عَلَیْھَا یہ بیماری ہے، دوا نہیں ہے اور میری اُمت کی شفاء حرام میں نہیں ہے۔ شراب خوار رپر حد واجب ہوجاتی ہے جبکہ اس پر گواہ موجود ہوں یا شرابی خود شراب پینے کا اقرار کر لے۔ اگر خمر و شراب کی بدبو آئے یا لوگوں نے اُسے قے کرتے دیکھا یا اس کے مثل دوسرے آثار دیکھے جائیں تو کہا گیا ہے اس پر حد جاری نہیں ہوگی کیونکہ یہ احتمال ہے یہ خمر(شربت) نشہ آور نہ ہو یا لا علمی سے اس نے(شراب) پی لی ہو یا زبردستی اُسے پلائی گئی ہو۔ اور کہاگیا ہے کہ اسے کوڑے لگوائے جائیں گے جبکہ معلوم ہو جائے(کہ وہ شربت و شراب) نشہ آور تھی۔ اوریہ قول خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا عثمان سیدنا علی اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے ماثور ہے۔ اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی پر دلالت کرتی ہے اور لوگوں کا تعامل(و عمل) بھی یہی ہے اور یہی مذہب امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا ہے اور انہوں نے اس کی تصریح بھی کی ہے ۔ اور انگور اور کھجور کے پتوں کو پکا کر جومشروب تیار کیاجاتا ہے وہ بھی حرام ہے۔ اس کے پینے والے کو کوڑے لگوائے جائیں گے۔ یہ تو خمر و شراب سے بھی زیادہ خبیث ہوتا ہے کہ اس سے عقل اور مزاج دونوں خراب ہوجاتے ہیں یہاںتک کہ اس سے ہیجڑا بن جاتا ہے اور بے غیرتی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اور شراب زیادہ خراب اور خبیث اسی لیے ہے کہ اس سے لڑائی اور یعنی قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس طرح وہ اللہ کے ذکر سے روکتی ہے؛ نماز سے بھی روکتی ہے ۔ بعض متاخرین فقہاء نے اس کی حد میں توقف کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں حد سے کم تعزیر کی جائے کیونکہ اس سے تغیر عقل کاگمان ہے اور یہ بمنزلہ بھنگ پینے کے ہے۔ اور متقدمین علماء سے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ ثابت نہیں ہے حالانکہ یہ گھاس اور پتے ایسے نہیں ہیں بلکہ اس کے کھانے والے شوق اور خواہش سے اُسے کھاتے ہیں اور یہ آرزو رکھتے ہیں کہ اور بھی ہوں تو کھالیں۔ جیسے شراب اور خمر کا شوق خواہش اور آرزو رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے اکثر ذکر الٰہی میں خلل آجاتا ہے۔ اور جب اس کی کثرت ہوتی ہے تو نماز میں بھی خلل واقع ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ بے غیرتی اور ہیجڑا پن اور فسادِ مزاج، فسادِ |