Maktaba Wahhabi

140 - 234
عدوان﴿گناہ اور فسق و فجور﴾ کا تعاون ہے بلکہ اس کام کی مدافعت﴿یعنی اس سے روکنا اور رُکنا﴾ واجب ہے کیونکہ مظلوم کی نصرت و اعانت واجب ہے جیسا کہ صحیحین﴿یعنی بخاری و مسلم﴾ میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُنْصُرْ اَخَاکَ ظَالِماً اَوْ مَظَلُوْمًا قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰه اَنْصُرُ مَظْلُوْمًا فَکَیْفَ اَنْصُرُ ظَالِمًا قَالَ تَمْنَعُہٗ مِنَ الظُّلْمِ فَذَالِکَ نَصْرُکَ اِیَّاہٗ(بخاری و مسلم) تم اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ میں نہ کہا یارسول اللہ! مظلوم کی امداد تو ٹھیک ہے ظالم کی امداد ہم کیسے کریں؟ آپ ا نے فرمایا: اُسے ظلم سے روکو یہ تمہارے بھائی ظالم کی مدد ہے۔ صحیحین یعنی(بخاری و مسلم) میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو سات چیزوں کا حکم فرمایا اور سات چیزوں سے ہم کو منع فرمایا۔ ہم کو حکم دیا کہ ہم مریض کی عیادت کریں، جنازے میں شرکت کریں، چھینک کا جواب دیں، قسم کھانی ہو تو اُسے پورا کریں، کوئی دعوت دے تو اسے قبول کریں اور مظلوم کی نصرت و امداد کریں۔ اور ہمیں منع کیا ہے سونے کی انگوٹھی پہننے سے، چاندی کے برتن میں پینے، میاثرہ، ریشم، قسی، دیباج اور استبراق کے پہننے سے۔ پس اگر یہ جاننے والا جسے ٹھکانہ اور پتہ معلوم ہو اور وہ اُس کا ٹھکانہ اور پتہ بتلانے سے انکار کرتا ہے تو اُسے عقوبت و سزادینا جائز ہے خواہ سزا حبس ہو یا کوئی دوسری سزا یہاں تک کہ وہ اُس کا پتہ بتلا دے کیونکہ حق واجب سے وہ انکار کرتا ہے جس میں کسی کی نیابت نہیں چل سکتی تو اُسے عقوبت و سزا دی جائے جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ اور اُسے عقوبت و سزا دینا اُس وقت تک جائز نہیں جب تک یہ معلوم اور ثابت نہ ہو جائے کہ یہ جانتا ہے اور ٹھکانے کی وہ خبر رکھتا ہے۔ اور یہ حکم تمام حکام کے لیے ضروری ہے، والی﴿یعنی گورنر﴾ ہو، یا قاضی، یا دوسرا کوئی﴿سول، پولیس، فوجی افسر وغیرہ﴾ ہو، سب پر لازم ہے کہ واجب کو چھپانے، قول و فعل سے روکنے والے کی تحقیق کریں۔ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ تم پر حق اور واجب تھا اور اس پر نہیں تھا۔ نہ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ایک کی سزا دوسرے کو دی جائے جیسا کہ اس آیت کے اندر وارد ہے:
Flag Counter