اور ایک دوسری حدیث میں ہے : اِنَّ الْمَعْصِیَۃَ اِذَا اُخْفِیَتْ لَمْ تَضُرَّ اِلَّا صَاحِبَھَا وَلٰکِنْ اِذَا ظَھَرَتْ فَلَمْ تُنْکَرْ ضَرَّتِ الْعَامَّۃُ معصیت و گناہ مخفی طور پر کیا جائے تو معصیت و گناہ کے اثر سے کرنیوالے ہی کو نقصان پہنچتا ہے لیکن جب کھلے طور پر کیا جائے اور اس کی اصلاح نہ کریں تو عام لوگوں کو نقصان ہوتا ہے اور اسی قسم کو ہم نے حدودِ الٰہی، اور حقوق اللہ کے اندر پیش کیاہے جس کا بڑے سے بڑامقصود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اور امر بالمعروف مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، صدقہ و امانت، والدین کے ساتھ نیکی اور بھلائی، صلہ رحمی، اہل وعیال اور پڑوسیوں سے حسن معاشرت وغیرہ۔ پس ولی الامر﴿سردار، چودھری، افسر وغیرہ﴾، حاکم﴿وقت﴾ کا فرض ہے کہ جن پر قدرت رکھتا ہے انہیں فرض نماز کا حکم کرے۔ اور تارکِ نماز کو عقاب و عذاب دے۔ اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اگر تارکِ نماز باغی و ہٹ دھرم و سرکش گروہ ہے تو ان کے خلاف جہاد کرے، اس پر بھی مسلمانوں کا اجماع ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ اور روزے ترک کرنے والوں کے خلاف بھی جہاد کیا جائے۔ یہی حکم ہے ان محرمات کا جن پر اجماع ہے۔ ان محرمات کو حلال جاننے والوں کے خلاف بھی جہاد کیا جائے۔ مثلاً محارم سے نکاح کرنا، اللہ کی زمین پر فساد پھیلانا وغیرہ۔ ان کے خلاف جہاد فرض ہے۔ ہر مضبوط اور سخت گروہ اگر التزامِ شریعت اور شرائع اسلام جو ظاہر اور متواتر ہیں، ان کا انکار کرے تو ان کے خلاف جہاد کرنا فرض ہے یہاں تک کہ تمام دین اللہ تعالیٰ کا دین ہو جائے۔ اس مسئلہ پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ اگر تارکِ نماز ایک شخص ہے تو اس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اُسے سزا دی جائے، مار ماری جائے، قید و حبس میں رکھا جائے یہاں تک کہ وہ نماز کا پابند ہو جائے۔ اور جمہور علماء اس پر ہیں کہ اُسے قتل کر دیا جائے۔ اور اُسے قتل کرنا واجب ہے جبکہ وہ نماز ترک کرنے پر اڑ جائے۔ پہلے اُسے کہا جائے کہ توبہ کرو۔ اگر وہ توبہ کر لے اور نماز پڑھنے لگے تو بہتر وگرنہ قتل کر دیا جائے۔ اب اس کے بارے میں یہ فیصلہ باقی ہے کہ آیا یہ کافر ہو گیا اس لیے قتل کر دیا جائے، یا فاسق ہے اس لئے؟ اس مسئلہ میں دو قول |