کو دہراتا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ شک کی وجہ سے میں چار رکعت والی نماز کی پانچ یا چھ رکعات ادا کر لیتا۔ تکبیر تحریمہ کا قصہ تو عجیب ہے۔ میں سری اور جہری بار بار تکبیر تحریمہ کہتا رہتا یہاں تک کہ تعداد بیس یا تیس تک پہنچ جاتی۔ میں یہ بتانا پسندکروں گاکہ تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔ مجھے جو تجربہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جب انسان کمزور ہوتو اس پر مرض حملہ کرتا ہے اور پھر بیماری بڑھتی ہی جاتی ہے۔ یہی حال شیطان کا ہے، جب وہ کسی قوی انسان پر وسوسہ ڈالتا ہے تو وہ شیطان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاتا ہے اور جو کمزور انسان ہوتو شیطان اس پر غلبہ پا لیتا ہے اور وسوسے پر وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔ ٭…ایک اور بھائی اپنی داستان اس طرح سناتے ہیں: میں غسل خانے کے دروازے کو چھونے کے بعد اور بلب بند کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو دھوتا رہتا تھا۔ اگر میں کسی گندے کپڑوں والے آدمی کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھ لیتا تو غسل کر کے کپڑے تبدیل کرتا۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس وسوسہ کا سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ ان اشیاء کی اصل پر اعتماد کیا جائے اور وہ ان چیزوں کا پاک ہونا ہے۔ان چیزوں کو چھونے کے بعد ہاتھوں کو دھونا صرف تشدد ہی ہے۔ جان لیجئے کہ ان چیزوں پر مسلسل عمل کرتے جاناایک روز کسی بڑی مصیبت میں ڈال دے گا۔ اس وہم سے بچنے کا حل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرتے ہوئے اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نازل نہیں کی کہ جس کی دوا اور شفا نازل نہ کی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتقاد بھی رکھیں کہ جو آزمائش آتی ہے وہ گناہوں کی وجہ سے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ توبہ کرنے کی وجہ سے اس سے نجات دے دیتے ہیں۔ اس لیے میں وسوسہ کے مریض کو مشورہ دوں گا کہ ان باطل خیالات کو دل میں بالکل جگہ نہ دے اور نہ ان کی طرف التفات کرے۔ اگر کوئی بندہ وضو کرنے کے بعد اس شک میں پڑجاتا ہے کہ اس کا وضو ٹوٹا ہے یا نہیں تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھنے چلا جائے اور اس وسوسہ کو کوئی اہمیت نہ دے۔ وسوسے کا مریض شجاعت اور بہادری کے ساتھ وسوسے کی فکر کا علاج کرے اور اس سے بھاگنے کا خیال دل سے نکال دے۔ کیوں کہ آدمی لوگوں کے |