Maktaba Wahhabi

33 - 83
واضح ترین انداز میں مجاز ہے،اور کون نہیں جانتا کہ ایسا ہے ……تو بتائیے ربکم الاعلی کون ہے،اللہ یا ایوان سیاست کے خدا؟ مولانا مودودی کہتے ہیں (1) ’’فرعون کا اصلی دعویٰ فوق الفطری خدائی کا نہیں بلکہ سیاسی خدائی کاتھا۔وہ ربوبیت کے تیسرے یعنی خبر گیری کرنا،اصلاح حال کرنا،دیکھ بھال اور کفالت کرنا،چوتھے یعنی فوقیت،بالاد ستی سرداری،حکم چلانا،تصرف کرنااور پانچویں یعنی مالک،آقا کے معنی کے لحاظ سے کہتا تھا کہ میں سرزمین مصر اور اس کے باشندوں کارب اعلیٰ(Over-Lord)ہوں۔اس ملک اور اس کے تمام وسائل و ذرائع کا مالک میں ہوں۔یہاں کی حاکمیت مطلقہ کا حق مجھ ہی کو پہنچتا ہے۔یہاں کے تمدن و اجتماع کی اساس میری ہی مرکزی شخصیت ہے۔یہاں قانون میرے سوا کسی اور کا نہ چلے گا۔‘‘(قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ص 82-83) (6) لیجئے شریعت کی آبرو رہ گئی اور ایوان نے بل پاس کر دیا۔مبارک ہو بس اب تھوڑی سی ’’پیچیدگی‘‘ باقی ہے!بل پاس تو ہوگیا مگر(آرٹیکل 70کی روسے)قانون تو یہ تب بنے گا جب دوسرا ایوان بھی اسے پاس کردے گا۔اتنی خواری کے بعد شریعت کا ابھی آدھا کام ہوا ہے،سو حاکم اعلیٰ کے نام سے جو درخواست آئی تھی،اس کی فائل پہلے ایوان نے دوسرے ایوان کو ریفر کر دی ہے۔اللہ خیر کرے دیکھئے اب کیابنتا ہے! (7) اگر دوسرے ایوان کے خداؤں کی منظوری حاصل کرنے میں شریعت فیل ہوجاتی ہے ……چاہے تو صاف مسترد کر دی جائے اور چاہے تو نہ مسترد کی جائے اور نہ پاس کی جائے ……تو مؤخر الذکر صورت میں 90روز تک اللہ کا عذاب ہی آئے تو آئے اور کچھ نہیں ہوسکے گا۔قصہ کوتاہ دوسرا ایوان بھی حکم اللہ کے ساتھ وہی سلوک کرنے کا مجاز ہے اور یوں بھی وہ اتنا ہی ’’مقدس‘‘ ہے۔ (8) نامراد واپس آنے کے بعد یہ بل پھر پہلے ایوان کی نظر ثانی کا حاجت مند ہوگا اب یہ ایوان اس پر کوئی اقدام نہ کرے تو یہ بل خود بخود اپنی موت آپ مر جائے گااور ……شریعت کاکام نہ بن سکے گا۔
Flag Counter