منظور ہوجائے گی،جبکہ ابھی شریعت کے امتحان اور بھی ہیں!یہ امتحان کلیئر کرکے شریعت یہ دیکھے جانے کے قابل ہوجائیگی کہ آیا یہ قانون بننے کی اہلیت رکھتی ہے یا نہیں؟بتائیے اس ایوان کے کفر میں ’’اسلام پسند‘‘یہ ذلت کی گٹھڑیاں اسلام کے نام پر وصول کرتے ہیں اور عرش سے اترے ہوئے دین کو اس گھٹیا ایوان میں اپنے ساتھ ذلت کی بھیک منگواتے ہیں،تو ان کے لئے آپ کے ایمان کی غیرت کیا سزا تجویز کرتی ہے؟یہ آپ کا بھی امتحان ہے! (4) اب ایوان میں بحث شروع ہوجائے گی اس بات پر کہ زین و آسمان کے مالک کی بات کو قانون کارتبہ دیاجائے یا نہ! ایوان کے تقدس کے سلسلے میں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ آئین کے legislative erudecorمیں کہیں بھی کوئی اشارہ تک نہیں کہ کوئی ’’اسلامی ‘‘ بل پیش ہوتو صرف کلمہ گو ممبران ہی اس پر رائے زنی کرنے کے مجاز ہوں گے۔اس لئے جب یہ بحث شروع ہوجائے گی تو ویسے تو ’’مسلمان‘‘ ممبران کی بھی بھانت بھانت کی کفریہ بولیاں سننے کو ملیں گی تاہم اللہ کے نام پر دراز اس کاسہ گدائی میں خیرات کے چند ٹکے ڈالنے کے مسئلے پر جے سالک بھی اظہار خیال فرمائے گا،بہرام ڈی آواری بھی ’’دلائل ‘‘ دے گا اور ہندو،قادیانی و دیگر اقلیتی کافر بھی لاف زنی کر سکیں گے۔یہ بحث ارکان کی نوک جھونک پھبتیوں چٹکلون اور بیت بازی کے ساتھ مہینہ بھر چلتی رہے یا اس سے زیادہ طول پکڑ جائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔بہرحال قوم کر ہر روز ایوان کی کاروائی کی جھلکیاں اخباری میں پڑھنے کو ملتی رہیں گی کئے جناب کیا یہ خوض فی آیات اللہ نہیں ہے؟(ملاحظہ ہو سورۃ المعارج42،سورۃ الزخرف 83سورۃ الانعام 68) (5) ’’معزز ارکان ‘‘ اللہ کے حکم کے بارے میں اپنی اپنی ’’ناقص رائے ‘‘ کے اظہار خیال سے فارغ ہو چکیں تو ایوان میں رائے شماری voting کا مرحلہ درپیش ہوگا۔شریعت کے لئے یہ وقت سب سے |