Maktaba Wahhabi

29 - 83
پارلیمنٹ کو بعینہ وہی اختیارات حاصل ہیں جو دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں پارلیمنٹ کے لئے مختص ہوا کرتے ہیں۔دستور کے ان تمام مذکورہ ابواب اور دفعات کی تفصیل تو یہاں ممکن نہیں البتہ اس کے صرف ایک باب(legislative procedure)قانون سازی کا پروسیجر(آرٹیکل 70 تا77)کے عملی اطلاق کی مختصر وضاحت کی جاتی ہے۔ فرض کیجئے کسی اسلام پسند ممبر نے پارلیمنٹ میں کوئی بل پیش کیا ہے۔مثال کے طور پر وہ اس بل کے ذریعے سودکو قانوناً ناجائز قرار دلوانا چاہتا ہے۔آئیے دیکھتے ہیں آئین کے legislative procedureکی رو سے اس بل کو کفر کے کتنے مراحل سے گزرنا ہوگا۔ قانون دانوں کو اس سے ہرگز انکار نہ ہوگا۔ (1) پہلا کفر تو یہ ہے کہ جو قانون چودہ سو سال پہلے نازل ہواتھا اور اللہ کی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونا ہی اس کے قانون ہونے کی دلیل تھا،اور اس کے نازل ہونے سے اگلے لمحے اسے بطور قانون ماننے میں تھوڑی سی پس و پیش بھی ایسا واضح ترین کفر تھی کہ اس میں شک کرنیوالا بھی کافر ہوتا اور عمر رضی اللہ عنہ کی تلوار کسی بھی آئینی پروسیجر کا انتظار کئے بغیر بجلی کی سی تیزی سے چل جاتی اس قانون کو پاکستان کانظام سرے سے قانون ہی تسلیم نہیں کرتا۔ظاہر ہے اگر اسے قانون مانتا ہو تو بل کس چیز کا پیش کیاجائے؟اب ذراان ’’ اسلام پسندوں‘‘ کے بارے میں بھی عمر رضی اللہ عنہ کی تلوارکی رائے معلوم کریں جو اللہ کے حکم کو ایک ایسے بل کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جو ابھی تو نہیں،تب قانون بنے گا جب پارلیمنٹ منظور کرے گی۔ (2) چلئے قرآن کی ایک آیت کی یہ حیثیت تو نہیں کہ اسے قانون تصور کیاجائے اور یوں اس کابل کی صورت میں ہی ایوان سرکار میں پیش ہونا ٹھہر یا ہے تو کم از کم اتنی مہربانی تو ہو کہ اسے ایوان کے منتخب رکن کی تحریک کے بغیر ہی دربار میں حاضری کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔سو اگر منتخب رکن کے علاوہ دیگر کوئی آدمی اللہ کے حکم کو ایک بل کی سی ذلت سے ہی پیش کرنا چاہے تو آئین کی نظر میں یہ کفر صرف
Flag Counter