کروگے،ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی جانب سے عذاب بھیج دے پھر تم دعا کروگے تو تمہاری دعا بھی قبول نہ ہوگی۔
نیز اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ(١٦٥)﴾[1]۔
تو جب وہ اس چیز کو بھول گئے جو ان کو سمجھایا جاتا تھا تو ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو اس بری عادت سے منع کیا کرتے تھے اور ان لوگوں کو جو کہ زیادتی کرتے تھے ایک سخت عذاب میں پکڑ لیا اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کیا کرتے تھے۔
چہارم:تمام اعتقادات اور اقوال و افعال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و پیروی کرنا[2]۔
پنجم:اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا کرنا اور اس کی پناہ لینا:
1- دعا پریشانی کے دور کرنے اور مطلوب کے حاصل کرنے کا سب سے عظیم ذریعہ ہے ‘ لیکن کبھی کبھار یا فی نفسہ دعا کی کمزوری کے سبب اس کا اثر نہیں ہوپاتاہے ‘ وہ اس طور پرکہ وہ ظلم و سرکشی کی دعا ہو جسے اللہ تعالیٰ پسند نہ فرمائے،یا دل کی کمزوری اور اس کے اللہ کی جانب متوجہ نہ ہونے کے سبب‘ یا دعا کی قبولیت سے کسی مانع کے سبب‘ جیسے حرام خوری‘ ظلم اوردلوں پر گناہوں کے زنگ لگ جانے نیز غفلت‘ چوک اور بے توجہی کا غلبہ و تسلط وغیرہ‘ اور یا تو مقبول دعا کے شرائط نہ پائے جانے کے سبب[3]۔
2- دعاء نفع بخش دواؤں میں سے ہے،وہ مصیبت کی دشمن ہے،مصیبت کو نزول سے پہلے ہٹاتی ہے اور اس کا علاج کرتی ہے،اور اس کے نزول کو روکتی ہے یا نزول کے بعد اس میں تخفیف کرتی ہے،اور وہ مومن کاہتھیار ہے[4]۔
|