Maktaba Wahhabi

496 - 532
پہلی تفسیر:یہ ہے کہ یہ حدیث وعید اور دھمکی پرمحمول ہے،حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جسے شرم و حیاء نہیں ہوتی ہے وہ جو برائی کرنا چاہتا ہے کرگزرتا ہے،کیونکہ برائیوں کے ترک کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز حیاء ہی ہے،اور جب اس میں حیاء جو برائیوں سے متنبہ کرتی ہے مفقود ہے تو وہ شخص برائیوں میں لا محالہ واقع ہوگا،یہی(اس حدیث کا)مشہور معنیٰ ہے۔ دوسری تفسیر:یہ ہے کہ جب تمہیں کوئی کام کرنے میں اللہ سے حیا نہ آتی ہو تو وہ کام کرہی لو،جبکہ(حقیقت میں)اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہوئے اسے ترک کرنا ہی مناسب اور بہتر ہے۔ چنانچہ پہلا معنیٰ وعید کے طور پر ہے ‘ جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ۖ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ(٤٠)[1]۔ جو چاہو کرو،بیشک وہ تمہارے عملوں کو دیکھ رہا ہے۔ اور دوسرا معنیٰ اجازت اور جواز کے لئے ہے [2]۔ (14)گناہ دلوں میں خوف اور رعب ڈال دیتے ہیں،چنانچہ آپ گنہ گار کو ہمیشہ ڈرتا‘ گھبراتا اور مرعوب ہی پائیں گے،کیونکہ اطاعت اللہ کا وہ عظیم قلعہ ہے کہ اس میں جو بھی داخل ہوتا ہے دنیا وآخرت کے عذاب سے امن و امان میں ہوجاتا ہے اور ا س سے جو نکل جاتا ہے خوف ودہشت اور خطرناکیاں اسے ہر جانب سے گھیرلیتی ہیں،چنانچہ جو اللہ کی اطاعت کرتا ہے اس کے حق میں خوفناکیاں امن و سکون میں بدل جاتی ہیں،اور جو اس کی نافرمانی کرتا ہے اس کا امن و سکون خوف و رعب میں بدل جاتا ہے،جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اسے ہر چیز سے امن میں داخل کردیتا ہے اور جو اللہ سے نہیں ڈرتا ہے اللہ اسے ہر چیز سے خوف میں مبتلا کردیتا ہے[3]۔ (15)گناہ دل کو مریض بنا دیتا ہے اور اسے اس کی صحت و استقامت سے ہٹا کر مرض و انحراف کا شکار بنا دیتا ہے،دلوں میں گناہوں کی تاثیر اسی طرح ہوتی جس طرح جسموں میں بیماریوں کی تاثیر،بلکہ گناہ ہی دلوں کی بیماریاں ہیں،اور گناہوں کا ترک کرنا ہی ان کی دوا اور علاج بھی،اور جس طرح اپنے نفسانی خواہشات پر
Flag Counter