Maktaba Wahhabi

387 - 532
فضیلت سمجھتے تھے‘‘[1]۔ امام ابو بکر طرطوشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ابو محمد المقدسی نے مجھے خبر دی وہ فرماتے ہیں:’’ما ہ رجب اور شعبان میں جو یہ ’’صلاۃ الرغائب‘‘ پڑھی جاتی ہے ‘ ہمارے یہاں بیت المقدس میں کبھی نہ تھی،ہمارے یہاں سب سے پہلے اس کا وجود 448؁ ھ میں ہوا،وہ اس طرح کہ ابن ابو الحمراء نامی ایک شخص نابلس سے ہمارے یہاں بیت المقدس آیا،وہ ذرا خوش آواز تھا،چنانچہ پندرہویں شعبان کی شب مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا،اسے دیکھ کر ایک شخص اس کے پیچھے اور کھڑا ہوگیا،پھر تیسرے اور اسی طرح چوتھے کا اضافہ ہوا،یہاں تک کہ ختم ہوتے ہوتے پوری ایک جماعت ہوگئی،پھر آئندہ سال بھی وہ شخص آیا اور اسی طرح لوگوں کی ایک جماعت نے اس کے ساتھ نماز ادا کی،اسی طرح اس کے بعد بھی،یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ اور لوگوں کے گھر گھر میں اس نماز کا چرچا ہو گیا،پھر یونہی معاملہ چلتا رہا،اور آج تک لوگ اسے سنت سمجھ کر اس پر عمل کرتے آرہے ہیں‘‘[2]۔ امام ابن وضاح اپنی سند سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ سے کہا گیا کہ زیاد نمیری کہتا ہے:’’شعبان کی پندرہویں شب کا ثواب لیلۃ القدر کی طرح ہے‘‘،تو انہوں نے فرمایا:’’اگر میں اسے یہ کہتے ہوئے سنتا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہو تی تومیں اس کی پٹائی کرتا‘زیاد قاضی تھا‘‘[3]۔ امام ابو شامہ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جہاں تک الفیہ(ہزارہ)کا مسئلہ ہے‘ تو شعبان کی پندرہویں شب کی نماز کا نام الفیہ(ہزارہ)اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس نماز میں﴿قل ھو اللّٰه أحد﴾کی تلاوت
Flag Counter