پھر حدیث صلاۃ الرغائب کا تذکرہ فرمایا ہے،جس میں یہ ہے کہ رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے،پھر جمعہ کی شب مغرب اورعشاء کے درمیان بارہ رکعتیں پڑھے،ہر رکعت میں ایک بار سورئہ فاتحہ ‘ تین بار﴿إنا أنزلناہ في لیلۃ القدر﴾اور بارہ بار﴿قل ھو اللّٰه أحد﴾کی تلاوت کرے،اور ہر دورکعت پر سلام پھیرے۔اس کے بعد حافظ ابن حجر نے تسبیح ‘ استغفار‘ سجدہ اور درود نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں تفصیلی گفتگو کیہے۔
پھر یہ وضاحت فرمائی ہے کہ یہ حدیث موضوع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان ہے،نیز بتایا ہے کہ اس میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جو یہ نماز پڑھے اس پر ضروری ہے کہ اس دن کا روزہ بھی رکھے،جبکہ بسا اوقات دن میں کا فی سخت گرمی پڑتی ہے،اورظاہر ہے کہ جب انسان روزہ رکھے گا تو اسے نمازمغرب تک کھانے پینے سے احتراز کرنا ضروری ہوگا،اور پھر مغرب کے بعد اس نمازکی ادائیگی کے لئے کھڑا ہوگا،اور پھران لمبی تسبیحوں اور طویل سجدوں میں اپنے آپ کو کھپائے گا تو کس قدر تکلیف اور اذیت رسانی سے دوچار ہوگا ؟! نیز فرماتے ہیں:’’ مجھے ماہ رمضان اور صلاۃ تراویح پر غیرت آتی ہے کہ اس میں اہل ایمان کی کس قدر بھیڑ ہوتی ہے،لیکن جاہل عوام کے نزدیک یہ نماز(صلاۃ الرغائب)اُ س سے بھی افضل اورعظیم تر ہے،کیوں کہ اس میں وہ لوگ بھی حاضر ہوتے ہیں جو فرائض تک نہیں ادا کرتے‘‘[1]۔
امام ابن الصلاح رحمہ اللہ صلاۃ الرغائب کے متعلق فرماتے ہیں:’’صلاۃ الرغائب والی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے،اور یہ ایک ایسی بدعت ہے جو چوتھی صدی ہجری کے بعد معرض وجود میں آئی‘‘[2]۔
امام عز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے 637 ھ میں فتویٰ دیا ہے کہ صلاۃ الرغائب ایک بدترین قسم کی بدعت ہے،اور اس سلسلہ میں بیان کی جانے والی حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے‘‘[3]۔
صلاۃ الرغائب کے بطلان اور اس کے مفاسد کے سلسلہ میں امام ابو شامہ رحمہ اللہ کی بات کا خلاصہ پیش
|