لیکن نئی تہذیب کے گندے انڈوں نے اسلام کو اس طرح مسخ کیا کہ خود بھی اپنے اوپر جہنم کو واجب کیا اور معاشرے کو بھی گدلا کیا جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((ثَلاَثَۃٌ قَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمُ الْجَنَّۃَ: مُدْمِنُ الْخَمْرِ وَالْعَاقُّ وَالدَّیُّوْثُ الَّذِیْ یُقِرُّ فِیْ أَھْلِہِ الْخُبْثَ۔)) [1] ’’تین اشخاص پر جنت کو اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا ہے شرابی‘ والدین کا نافرمان اور دیوث وہ جو اپنے گھر میں خباثت پر اقرار کرے (چپ رہے)۔‘‘ تو میرے مسلمان بھائی! ذرا سوچئے جو اپنی بیوی‘ بیٹی‘ بہن اور ماں کو پردے کا نہ تو حکم دیتا ہے اور نہ ان کو بے پردگی سے منع کرتا ہے بلکہ خوش ہوتا ہے تو اس پر بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت حرام ہے اور جہنم واجب ہے۔ علامہ عبدالرحمن الصالح المحمود اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’دیوث سے مراد وہ شخص ہے کہ اس کو پتہ ہو کہ میری بیوی اور گھر والے فحاشی میں ملوث ہیں اور وہ اس پر خاموش رہے یا وہ اپنی بیٹی اور بیوی کو دیکھے کہ وہ فون پر کسی اجنبی سے باتیں کر رہی ہے اور وہ خاموش رہے اس کو مغازلات کہتے ہیں‘ یا وہ اس بات پر راضی ہو کہ اس کی بیٹی یا بیوی ایک ایسے آدمی کو دیکھے جو کہ آدھا ننگا ہو اور ٹی وی یا وی سی آر یا ڈش میں کسی عورت سے بوس و کنار کر رہا ہو تو یہ بھی دیوث ہے اور جو شخص اپنے ڈرائیور اور خانساماں کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت دے دے اور وہ اس کی عورتوں اور گھر والوں میں اختلاط کا موجب بنے اور وہ شخص جو اپنی عورتوں کو اس حال میں چھوڑ دے کہ وہ سڑکوں پر نکلیں اور ہر آنے والا ان کو دیکھے اور فتنے میں پڑے یہ بھی دیوث ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دیاثہ کی مہلک بیماری سے محفوظ رکھے۔ (آمین)‘‘ تو میرے بھائی! ایسی تہذیب جو جہنم کا بالن بنے اس کی طرف تو اپنی نسبت کرنا ہی آگ کو دعوت دینا ہے۔ کیونکہ شاعر کہتا ہے: |