امَسُّ أَیْدِی النِّسَائِ۔)) [1] ’’میں عورتوں کے ہاتھ کو چھوتا بھی نہیں۔‘‘ حتی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ((مَا مَسَّتْ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَدَ امْرَأَۃٍ قَطُّ۔)) [2] ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے کسی عورت کا ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔‘‘ لیکن غیرت مند مسلمان اپنے علم کے زعم میں سلام بھی کرتا ہے۔ بیٹی کا باپ اور بیوی کا خاوند خاموش تماشائی بنا ہوا ہے اور وہ پیار دے رہا ہے اور وہ لے رہی ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لَأَنْ یَّطْعَنَ فِیْ رَأْسِ أَحَدِکُمْ بِخَیْطٍ مِّنْ حَدِیدٍ خَیْرٌ لَّہٗ مِنْ أَنْ یَّمَسَّ امْرَأَۃً لاَ تَحِلُّ لَہٗ۔)) [3] ’’تمہارے سرکو لوہے کے نیزے سے پھوڑ دیا جائے یہ اس سے بہتر ہے کہ تم کسی عورت کو ہاتھ لگاؤ جو تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘ لیکن اگر کہا جائے کہ یہ چیز منع ہے تو کہتے ہیں دیکھو یار یہ تو ایسے ہی ہیں ان کو ایسے ہی رہنے دو‘ تو شاعر کہتا ہے: ایسے رہے کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے اس لیے بات تو قیامت کے دن کی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا تو جواب کون دے گا؟ اس لیے میرے مسلمان بھائی! دیہاتوں کے رواج‘ پیار لینا اور دینا حتی کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جہالت کی وجہ سے جب کوئی پردیس سے آئے تو دیہات کی عورتیں اس غیر محرم کو گلے لگا لیتی ہیں جو کہ بالکل منع ہے اس لیے حیا کرنی چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِسْتَحْیُوْا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ وَمَنِ اسْتَحْیَا مِنَ اللّٰہِ حَقَّ الْحَیَائِ فَلْیَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعٰی وَلْیَحْفَظِ الْبَطْنَ وَمَا حَوٰی وَلْیَذْکُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلٰی وَمَنْ أَرَادَ اْلاٰخِرَۃَ تَرَکَ زِیْنَۃ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا۔))[4] ’’اللہ سے حیا کرو جس طرح حیا کرنے کا حق ہے جو اللہ تعالیٰ |