’’اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو منع کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بھی خاوند کی اجازت کے بغیر (کسی غیر محرم سے) بات نہ کریں۔‘‘ اگر گھر میں بھی بات نہیں کرنی تو بازاروں اور سڑکوں اور فون پر کیسے جائز ہے؟ لیکن مسلمان کی حیا پتہ نہیں کہاں اڑ گئی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((الْحَیَائُ مِنَ الْاِیْمَانِ وَالْاِیْمَانُ فِی الْجَنَّۃِ وَالْبَذَائُ مِنَ الْجَفَائِ وَالْجَفَائُ فِی النَّارِ۔))[1] ’’حیاء ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جانے کا سبب ہے ور فحش گوئی بد اخلاقی سے ہے اور بد اخلاقی جہنم کا ایندھن بناتی ہے۔‘‘ اس حیاء کے رخصت ہوتے ہی مسلمان ہونے کا دعویدار اپنے گھر میں ہرایک کو آنے کی اجازت دے دیتا ہے‘ اگرچہ خاوند بھی ہو تو پھر بھی بڑے سکون سے اس گھر میں مرد آجا رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا تھا کہ: ((لاَ یَدْخُلَنَّ رَجُلٌ بَعْدَ یَوْمِیْ ھٰذَا عَلٰی مُغَیَّبَۃٍ (الْمَرْأَۃُ الَّتِیْ غَابَ عَنْہَا زَوْجَہَا) اِلَّا وَمَعَہٗ رَجُلٌ أَوْ اثْنَانِ۔)) [2] ’’آج کے بعد مرد اس عورت کے پاس نہ جائے جس کا خاوند اس کے گھر نہ ہو الا کہ اگر اس کے ساتھ ایک یا دو شخص ہوں تو پھر جا سکتا ہے (تاکہ فتنہ سے محفوظ رہے اور وہ بھی صرف نیکی کی غرض سے جا سکتا ہے یہ مقصود نہیں کہ اگر بدمعاشی کرنی ہے تو اکیلا نہ جائے بلکہ ایک دو کو ساتھ لے کر جائے)‘‘ لیکن آج کا غیرت مند مسلمان غیر محرم کو اجازت دیتا ہے کہ یار میں کہیں جا رہا ہوں ذرا آج میرے گھر میں سو جانا‘ حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: ((اَلاَ لَا یَبِیْتَنَّ رَجُلٌ عِنْدَ امْرَأَۃٍ ثَیِّبٍ اِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ نَاکِحًا (أَیْ زَوْجًا) اَوْ ذَا مَحْرَمٍ۔)) [3] ’’کوئی شخص شادی شدہ عورت کے پاس نہ سوئے‘ سوائے اس کے خاوند اور محرم کے۔‘‘ لیکن آج کا مسلمان کہتا ہے یار وہ تو اللہ کا ولی ہے تو ذرا بتلائیں کہ یہ حدیث جن کے |