Maktaba Wahhabi

29 - 131
مطابق ایک آنکھ کھلی رکھنے کا جواز بھی ایک خاص مقصد کے لیے ہے اور وہ راستہ دیکھنے کی ضرورت ہے چنانچہ جب وہ باہر نہ نکلے اور نہ ہی راستہ دیکھنے کی ضرورت ہو تو پھر غیر محرموں کے سامنے ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔ صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ علماء کے ہاں مرفوع حدیث کے حکم میں ہے اور ’’الصحابۃ کلھم عدول‘‘ ’’صحابہ سارے ہی عادل ہیں کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند ملی ہوئی ہے : {رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ} (المجادلۃ:۲۲) ’’صحابہ پر اللہ تعالیٰ راضی ہو گئے اور وہ اللہ تعالیٰ پر راضی ہو گئے۔‘‘ اور مذکورہ تفسیر اس امت کے مفسر قرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی: ((اَللّٰہُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّینِ وَعَلِّمْہُ الْحِکْمَۃَ۔)) [1] ’’اے اللہ! اس کو دین کا فہم دے اور اسے حکمت سکھلا دے۔‘‘ محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ السلمانی (تلمیذ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان {یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانپ لیا اور اپنی صرف بائیں آنکھ ننگی کی (تفسیر ابن کثیر ۳/۶۸۴) علامہ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ آیت حجاب ہے جو کہ تمام عورتوں کے لیے مشترک حکم ہے اوراس میں سر اور منہ کو ڈھانپنے کا وجوب بالکل واضح ہے کیونکہ اسی آیت سے صحابیات نے بھی یوں ہی چہرے اور سر کو ڈھانپنا سمجھا‘‘ چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آیت {یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ} نازل ہوئی تو انصاری عورتیں اپنے گھروں سے اس سکون اور اطمینان کے ساتھ نکلتیں کہ گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتی تھیں۔ [2]
Flag Counter