Maktaba Wahhabi

471 - 670
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے: (لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ) [1] "غصہ کی حالت کی طلاق اور آزادی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔" (اس کو احمد ، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے بیان کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے) اہل علم کی ایک جماعت نے جس میں امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔"الاغلاق" کی تفسیر"اکراہ اور شدید غصہ"سے فرمائی ہے۔ خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ اور اہل علم کی ایک جماعت نے فتوی دیا کہ نشے باز آدمی کی طلاق واقع نہیں ہوئی جب نشے نے اس کی عقل کو بدل دیا ہو اگرچہ وہ گناہگار ہے۔ رہی طلاق کے مباح ہونے کی حکمت تو یہ ایک واضح بات ہے کیونکہ بعض اوقات عورت مرد کے موافق اور مناسب نہیں ہوتی اور متعدد اسباب کی وجہ سے اکثر اس کو ناپسند کرتا ہے، جیسے عقل کی کمزوری، دین کی کمزوری اور بدتمیزی وغیرہ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے نکال دینے میں مرد کے لیے وسعت پیدا کر دی اور فرمایا: "وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللّٰـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ" ۚ " (النساء:130) "اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کردے گا۔"(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ ) حواس باختہ شخص کی دی ہوئی طلاق کا حکم: سوال:ایک شخص کا اپنی بیوی سے سخت جھگڑا ہوا حتیٰ کہ اس کی عقل متغیر ہو گئی، اس نے اپنی بیوی سے کہا:تجھے تین طلاقیں ہیں۔کیا اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو گی یا نہیں؟ جواب:جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے کہ مرد کو اپنےکہے کی ہوش نہ ہوتو اس سے کچھ واقع نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ) طلاق تو دی مگر بیوی کا نام وغیرہ ذکر نہ کیا: سوال:ایک آدمی کو غصہ آیا تو اس نے کہا:"طالق"اور اس نے اپنی بیوی کا نام ذکر نہیں
Flag Counter