جبکہ خرقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:یہ صحیح نہیں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ کہے:ہر ایک کی شرمگاہ دوسری کا حق مہر ہے تو نکاح صحیح نہیں ہے اور اگر ایسا نہیں کہا گیا تو یہ زیادہ صحیح ہے۔"
اس مسئلے میں اختلاف کے پیش نظر ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ بلاشبہ جو صریح شغار ہے اس میں اختلاف نہیں ہے اور وہ یہ کہ ان میں کسی کا حق مہر نہ ہو بلکہ شرمگاہ شرمگاہ کے مقابلے میں ہو،یا قلیل حق مہر مقرر کیاجائے تاکہ حیلے کے ذریعے اس نکاح کے بطلان کے حکم سے بچا جاسکے تو ایسا عقد دخول سے قبل یا دخول کے بعد فسخ کردیاجائے گا۔
شریعت اسلامیہ میں شغار کو حرام کیاگیا ہے کیونکہ اس میں ولایت کی ذمہ داریوں اور اس کے تقاضوں سے کھلواڑ ہے جبکہ ولی پر لڑکی کی خیر خواہی کرتے ہوئے محنت کرکے اچھا خاوند،جو اس کے لیے دینی اوردنیاوی سعادتوں کو حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو،ڈھونڈنا واجب ہے کیونکہ ولی کی نظر اپنی زیر تربیت لڑکی پر مصلحت ،رعایت اور اہتمام کی نظر ہے نہ کہ شہوت،تسلط اور غفلت کی نظر،پس وہ اس کی لونڈی،چوپائے یامملوکہ چیز کے درجے میں نہیں ہے کہ وہ اس کو اپنے ارادے کے حصول کا ذریعہ بنائے بلکہ وہ اس کی گردن میں امانت ہے۔اس پر لازم ہے کہ وہ برابر کے خاوند اور مہر مثل کے ساتھ اس کی شادی کا بندوبست کرے۔پس ہر ذمہ دار اور راعی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اور جب کسی ولی کی طرف سے لڑکی کی مصلحت میں تساہل برتا جائے اور وہ اپنی مصلحت کو اس کی مصلحت پر ترجیح دے،جیسا کہ وہ اس کے بدلے مال طلب کرے یا بیوی تلاش کرے یا اسکو شادی سے اس غرض سے روک کررکھے کہ کوئی اس کی مراد پوری کرے گا تو وہ اس کی شادی کرے گا،ایسی صورت میں لڑکی پر اس کی ولایت ساقط ہوگی اور ایسا قریبی ولی اس کے مقابلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے گا جو اس کی مصلحتوں پر توجہ دیتا ہو۔
اور سائل نے یہ جو ذکر کیا ہے کہ بنو حارث وغیرہ کے قبائل میں نکاح شغار عام ہوچکاہے تو اس پر اور ان تمام لوگوں پر جو مسلمانوں کے مصالح میں غیرت رکھتے ہیں واجب ہے کہ وہ اپنی زبانوں کے ساتھ اس سے روکیں، اور اگر وہ اس سے باز نہ آئیں تو
|