اورا گرتم شادی کرو گی تو تمہارا نکاح باطل ہوگا اور تو زنا میں ڈوبی ہوئی زندگی بسر کرو گی۔
اس مسئلہ میں یہی بنیادی نقطہ ہے۔ جو شخص اللہ کی شریعت سے اعراض کرکے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کا سہارا لے گا تواللہ اس کو دنیا میں ضرور ذلیل کرےگا اور آخرت میں اس کو عذاب سے دوچار کر ے گا۔الا یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے خلاف چاہیں،پس(اے بہن!بیٹی!) اس حرکت سے بچ جاؤ،یہ فتنہ ہے۔(محمد بن عبدالمقصود)
بیویوں میں باری کی تقسیم کا حکم:
سوال:دولہا اپنی کنواری بیوی کے ساتھ ایک ہفتہ اور بیوہ کے پاس تین دن اس طرح گزارتا ہے کہ باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے بھی نہیں نکلتا۔کیا یہ فرق اور نماز ک لیے نہ نکلنا سنت سے ثابت ہے؟
جواب:جب کنواری عورت سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن ٹھہرے ،پھر باری تقسیم کرے۔اور اگر بیوہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن ٹھہرے،پھر باری تقسیم کرے ،پس اگر بیوہ یہ چاہتی ہے کہ خاوند اس کے پاس سات دن ٹھہرے تو وہ ایسا کرے گا اور پھر باقیوں کے ہاں بھی اتنے ہی دن ٹھہرے گا۔
اس مسئلے کی دلیل وہ روایت ہے جو ابو قلابہ نے انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیاہے، فرماتے ہیں:
"من السنة إذا تزوج الرجل على الثيب أقام عندها سبعا وقسم وإذا تزوج الثيب أقام عندها ثلاثا ثم قسم"[1]
"یہ مسئلہ سنت سے ہے کہ جب آدمی(بیوہ بیوی کے ہوتے ہوئے) کنواری سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن گزار کر پھر باری مقرر کرے ،اور جب بیوہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن گزار کر پھر باری تقسیم کرے۔"
اور وہ روایت جس کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ بلاشبہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی تو ان کے پاس تین دن گزارے(اس لیے کہ یہ بیوہ تھیں) اور فرمایا:
"إنه ليس بك هوان على أهلك ، فإن شئت سبعت لك ، وإن سبعت
|