بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ" (النساء:23)
’’ اور تمھاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو اور تمھاری دودھ شریک بہنیں اور تمھاری بیویوں کی مائیں اور تمھاری پالی ہوئی لڑکیاں، جو تمھاری گود میں تمھاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو، پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمھارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمھاری پشتوں سے ہیں۔‘‘
تین رشتے سسرال کی وجہ سے حرام ہیں،پس اللہ تعالیٰ کاارشاد: وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ یعنی مرد پر اپنی بیوی کی ماں اوپر تک حرام ہے،خواہ وہ ماں کی طرف سےہو،یعنی نانی اور خواہ باپ کی طرف سے ہو، یعنی دادی۔اور بیوی کی ماں صرف عقد نکاح سے ہی حرام ہوجاتی ہے۔(مجامعت کا ہونا ضروری نہیں۔)
لہذا جب آدمی اپنی بیوی سے عقد نکاح باندھ لے گا تو اس کی ماں اس پر حرام ہوجائے گی اور مرد کے محارم میں شامل ہوجائے گی اگرچہ اپنی بیوی سے دخول ومجامعت نہ کی ہو،یعنی اگرچہ اس نے(اس عورت کی)بیٹی(اپنی بیوی) سے مجامعت نہ بھی کی ہو،پھر بالفرض اس کی بیوی فوت ہوجائے یا وہ اس کو طلاق دے دے تو وہ اس کی ماں کےلیے محرم ہوگا اگرچہ اس کا اپنی اس بیوی سے دخول مؤخر ہوجائے جس سے کہ اس نے شادی کی ہے۔وہ اپنی بیوی کی ماں کے لیے محرم ہی ہوگا،اس کی ساس اس کے سامنے اپنا چہرہ کھول سکتی ہے،اس کے ساتھ سفر کرسکتی ہے اور اس کے ساتھ خلوت میں بیٹھ سکتی ہے۔ان مذکورہ کاموں میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ بیوی کی ماں،دادی اور نانی محض عقد نکاح سے ہی حرام ہوجاتی ہیں،اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمومی ارشاد ہے:
وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ "اورتمہاری بیویوں کی مائیں۔"
اور عورت صرف عقد نکاح کرلینے سے ہی اس کی بیوی میں شامل ہوجائے گی۔
اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
|