سے مجامعت کرے گا۔ اوراگر وہ فاطمہ کی ماں کو مجامعت کرنے سے پہلے طلاق دے دے تو اس کے لیے فاطمہ سے شادی حلال ہوگی،لیکن اسماء(ساس) سے شادی حلال نہیں ہوگی۔
اگر خاوند کا باپ ہو،جس کا نام عبداللہ ہے،اور اس کے باپ کا ایک بیٹا ہے جس کا نام عبدالرحمان ہے،پس عبداللہ بیوی زینب پر صرف عقد کے ذریعہ حرام ہوگا اوراسی طرح عبدالرحمان بیوی زینب پر محض عقد سے حرام ہوگا،اورعبدالرحمان کے لیے زینب کی بیٹی فاطمہ سے شادی جائز ہوگی کیونکہ خاوند کے اصول وفروع صرف بیوی پر حرام ہیں،اس کے رشتہ داروں پر حرام نہیں ہیں۔
اور عبداللہ کے لیے،جو کہ خاوند کا باپ ہے ،اسماء سے شادی کرنا جائز ہے جو کہ بیوی کی ماں ہے۔اس کےدلائل درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ" (النساء:22)
" اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں مگر جو پہلے گزر چکا۔"
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خاوند کے فروع بیوی پر حرام ہیں۔
نیزاللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
"وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ" (النساء:23) "اور تمہاری بیویوں کی مائیں۔" بیوی کے اصول کو خاوند پر حرام کرتاہے۔
اور اللہ تعالیٰ کافرمان:
"وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ" (النساء:23)
"اور تمہاری پالی ہوئی لڑکیاں جو تمہاری گود میں تمہاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو،پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہوتو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
|