"جب تمہارے پاس ایسا شخص نکاح کا پیغام لے کر آئے جس کی دینداری اور امانت ودیانت سے تم خوش ہوتو اس کو رشتہ دے کر اس کی شادی کردو،اگر تم ایسا نہیں کروگے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد برپا ہوگا۔"
اور لڑکی کو ایسے شخص سے شادی کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے جس سے اس کا باپ خوش نہ ہوکیونکہ باپ اس کی نسبت زیادہ گہری نظر رکھتاہے اور اس لیے بھی کہ وہ نہیں جانتی کہ شاید اس کی بھلائی اور بہتری اس سے شادی نہ کرنے میں ہو۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ"(البقرہ:216)
"اور ہوسکتاہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔"
لہذا عورت پر لازم ہے کہ وہ اللہ سےدعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیک شوہر عطا کرے۔اور نوجوان لڑکیوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ نوجوان لڑکوں کے ساتھ خط وکتابت کے ذریعہ گفتگو کریں کیونکہ اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا اور نوجوان لڑکے اس کے متعلق طمع کریں گے اور اس سے لڑکیوں کی حیا جاتی رہے گی اور بہت سی دیگر خرابیاں بھی جنم لیں گی۔(الفوزان)
قریب کے ولی کی عدم دستیابی کی وجہ سے دور کے ولی کانکاح کروانا:
سوال:خط کے ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ ایک شخص اپنے چچا کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے مگر اس لڑکی کا ولی اس کے پانچ سالہ بھائی کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ اس لڑکی کا ایک چچا عرصہ پندرہ سال سے حبشہ میں کسی جگہ مقیم ہے، اس کو کئی دفعہ ٹیلی گرام بھی بھیجا گیا،مگر اس نے جواب نہیں دیا۔
جواب:ہم تمہاری راہنمائی کرتے ہیں کہ اگر معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ انھوں نے ذکرکیا ہے کہ اس لڑکی کا چچا حبشہ میں کسی ایسی مشہور ومعروف جگہ پر نہیں رہتا کہ اس کا حاضر ہونا اور شادی کا وکیل بننا ممکن ہوتو اس لڑکی کے دور کے موجود ولی کےذریعہ اپنا نکاح کروانے میں کوئی مانع نہیں ہے۔خصوصاً اس وقت جب اس کو اس کے ہمسر نے نکاح کا پیغام دیا ہو اور وہ اس سے نکاح کرنے میں رغبت بھی رکھتی ہو۔(محمد بن ابراہیم)
|