آپ کا گمان ہے کہ وہ دس دن ہیں تو دس دن کے روزے رکھو اور اگر آپ گمان کرتی ہیں کہ وہ اس سے زیادہ یا کم ہیں تو اپنے غالب گمان کے مطابق روزے رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"لَا يُكَلِّفُ اللّٰـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا" (البقرۃ:286)
"اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق ۔"
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"فَاتَّقُوا اللّٰـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ" (التغابن:16)
"سو اللہ سے ڈرو جتنی تم طاقت رکھو۔"
3۔تیسرا کام: ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلانا جب آپ کو اس پر قدرت ہے، چاہے ایک ہی مسکین پر سارے دنوں کے عوض میں صرف کردیا جائے۔ اگر آپ فقیرہ ہیں، کھانا کھلانے کی طاقت نہیں رکھتیں تو آپ پر روزے اور توبہ کے علاوہ کچھ لازم نہیں ہے اور ہر دن کے عوض جو کھانا کھلانا واجب ہے اس کی مقدار ملک کی عمومی غذا کا نصف صاع ہے جس کا وزن ڈیڑھ کلو بنتا ہے۔ (ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
جہالت کی بنا پر دوسو روزوں کا بوجھ رکھنے والی عورت کا حکم جو فی الحال بیمار بھی ہے:
سوال:ایک پچاس سالہ عورت جو شوگر کی مریضہ ہے اور روزہ اس کے لیے بہت ہی مشقت کا باعث بنتا ہے لیکن وہ رمضان کے روزے رکھا کرتی تھی اور وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ رمضان میں ایام حیض کے چھُوٹے ہوئے روزوں کی قضا کے لیے بہت سی گنجائش ہے اور اس پر تقریباً دو سو دنوں کے روزے جمع ہو گئے ان ایام کا کیا حکم ہے؟ خاص طور پر اب جبکہ وہ مرض کی حالت میں ہے کیا اللہ اس کے گزشتہ چھوڑے ہوئے روزوں کو معاف کردے گا یا کہ وہ روزے رکھے اور روزے داروں کے روزے کھلوائے ؟ اور کیا روزے داروں کو ہی کھانا کھلانا ضروری ہے یا کسی بھی مسکین کو کھانا کھلاسکتا ہے؟
جواب:یہ عورت اگر واقعی اسی حالت میں ہے جو سائل نے بیان کی ہے کہ وہ بڑھاپے یا
|