"أَلَيْسَ إذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ " [1]
"کیا ایسا نہیں کہ عورت جب حائضہ ہوتی ہے تونہ وہ نماز ادا کرتی ہے اور نہ ہی روزے رکھتی ہے؟"
لہٰذا ہم اس عورت کو روزہ چھوڑنے والیوں میں شمار کرتے ہیں اور نفاس بھی حیض ہی کی مثل ہے۔ حیض اور نفاس کے خون کا نکلنا روزے کو فاسد کردیتا ہے۔ اور رمضان کے دنوں میں حاملہ سے خون کا اترنا اگر وہ حمل سے پہلے کی عادت اور مقررہ صفت پر آیا ہو تو وہ حیض ہے اور روزے پر اثر انداز ہو گا اور اگر وہ حیض نہیں تو روزے پر اثر انداز نہیں ہو گا۔حاملہ کو جو حیض آتا ہے وہ اسی وقت حیض کے حکم میں ہو گا جب وہ مقرر ہ اوقات میں آئے اور حمل کے بعد بھی اس کا تسلسل منقطع نہ ہو تو راجح قول یہ ہے کہ وہ حیض ہے اور اس کے لیے حیض کے احکام ثابت ہوں گے لیکن جب حمل کے بعد خون آنا بند ہو گیا ،پھر اس نے خلاف معمول خون دیکھا تو یہ خون اس کے روزہ کو متاثر نہیں کرے گا کیونکہ وہ حیض ہی نہیں ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
حائضہ سے جماع کرنے کا حکم:
سوال:کیا حائضہ سے مجامعت جائز ہے یا نہیں؟
جواب:حائضہ سے ہم بستری کرنا جائز نہیں ہے، اس پر ائمہ کرام کا اتفاق ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حرام قراردیا ہے ۔اگر کوئی شخص اس سے بحالت حیض جماع کرلے تو اس کے کفارہ کے متعلق اختلاف مشہور ہے۔[2] اور اس عورت کے حیض کے سوا جنابت کا غسل کرنے میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ اور نفاس والی عورت سے جماع کرنا حائضہ عورت سے جماع کرنے کی طرح ہی حرام ہے، اس پر ائمہ کرام متفق ہیں۔
|