کے قاعدے ایک سوسے متجاوز ہیں۔
ثانیاً:جب ان دو متعارض حدیثوں میں تطبیق کے قاعدوں میں سے کسی قاعدے کے ذریعہ تطبیق ممکن نظر نہ آئے تو ہم ناسخ اور منسوخ کی طرف رجوع کریں گے۔پہلے کی حدیث کو منسوخ اور بعدوالی کو ناسخ قراردیں گے۔
ثالثاً:جب تلاش کرنے والے ناسخ و منسوخ کا بھی علم نہ ہوسکے تو ان کے ثبوت کے اعتبار سے کسی ایک کو دوسری پر ترجیح دی جائے گی، مثلاًان دو متعارض حدیثوں میں سے ایک حسن اور دوسری صحیح ہو۔ان میں تطبیق ممکن نہیں ہوئی اور نہ ہی ناسخ و منسوخ کا پتا چل سکا تو اس وقت صحیح حدیث کوحسن حدیث پر ترجیح دے دی جائے گی۔ اسی طرح جب ان میں سے ایک حدیث صحیح غریب ہو اور دوسری صحیح مستفیض یا مشہور ہو تو صحیح مستفیض یا مشہورحدیث کو صحیح غریب حدیث پر ترجیح دی جائے گی۔
رابعاً:اور جب وہ دونوں حدیثیں صحت ثبوت میں برابر ہوں اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینا ممکن نہ ہو تو ان دونوں پر فی الوقت عمل کرنا موقوف قرار دیا جائے گا۔ نیز یہ بھی کہا گیاہے۔
"فَسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ " (النحل:43)
"اگر تمھیں علم نہیں تو اہل علم سے سوال کرلو۔(فضیلۃالشیخ الالبانی رحمۃ اللہ علیہ )
کیا غسل جمعہ غسل جنابت سے کفایت کر جائے گا؟
سوال: کیا غسل جمعہ غسل جنابت سے کفایت کر جائے گا؟
جواب:جی ہاں غسل جمعہ کے وجوب کے قول پر بھی غسل جنابت غسل جمعہ سے کفایت کرجائے گا۔کیونکہ غسل جمعہ میں حکمت صفائی ستھرائی ہے اور یہی ان دونوں غسلوں میں علت مشترکہ ہے۔(فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق عفیفی رحمۃ اللہ علیہ )
کیا غسل جنابت، غسل جمعہ ،غسل حیض اور غسل نفاس سے کافی ہو گا؟
سوال: کیا غسل جنابت، غسل جمعہ ،غسل حیض اور غسل نفاس سے کفایت کرجائے گا؟
|