تو اسلام کے ابتدائی ایام میں جن احکام پر خاموشی اختیار کی گئی تو ان پر خاموشی ہی رہی اور ان میں اباحت اور جواز موجود رہا ۔جیسے کہ شراب ہے اور جب ان چیزوں کو حرام کرنے والے احکام نازل ہوئے تو علماء نے ان کو بنیاد بنا لیا۔
جب ہم اس قاعدہ کو غسل جمعہ والے مسئلہ پر لاگو کرتے ہیں تو درج ذیل صورت حال سامنے آتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے ۔
"لو أنكم اغتسلتم""اگر تم غسل کرو(تویہ بہترین ہے)"
اس حدیث سے غسل جمعہ پر ابھاراگیا ہے جبکہ اس سے پہلے جمعہ کے دن کا غسل ایک عام غسل تھا جو آدمی اپنی صفائی ستھرائی کے لیے کرتا ہے۔ ایسے ہی یہ حدیث ہے۔
"وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسُل أَفْضَلُ"
"اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل و بہترین ہے۔"
تو اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جمعہ کے دن صرف وضو پر اکتفا کرنے سے غسل کرنا افضل ہے، پھر اس کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں غسل جمعہ کے وجوب کا حکم ہے جیسے کہ یہ الفاظ فَلْيَغْتَسِلْ وہ غسل کرے۔(حق)(غسل جمعہ)حق ہے"واجب(غسل جمعہ) واجب ہے"ظاہر کرتے ہیں کہ غسل جمعہ کے وجوب پر دلالت کرنے والے یہ الفاظ غسل جمعہ کو مستحب اور افضل قراردینے والے حدیث کے الفاظ پر زائد حکم ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا "شرح النخبۃ"نامی ایک معروف رسالہ ہے جس میں وہ یوں رقمطرازہیں۔
جب مقبول کی دوقسموں :حسن اور صحیح میں سے کوئی دوحدیثیں باہم متعارض ہوں تو اس تعارض کو دور کرنے کے لیے ہم درج ذیل طریق کار کو اختیار کریں گے۔
اولاً:ہم تطبیق کے قاعدوں میں سے کسی قاعدے کی مدد سے ان دو متعارض حدیثوں میں تطبیق اور موافقت پیدا کریں گے اور باہم متعارض احادیث میں تطبیق دینے
|