Maktaba Wahhabi

79 - 92
نزدیک بے اصل اور موضوع ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ اور ہے بھی ایک جو کہ کثیر صحیح احادیث کے مقابلہ میں ہے۔[1] خلاصہ یہ نکلا کہ منکرین داڑھی کی دلیل بے اصل اور من گھڑت ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں اور وہ ضعیف جداً ہونے کے علاوہ صحاح احادیث کے مخالف ہے اور صرف مخالف ہی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر طعن کوثابت کرتی ہے کہ آپ نے اُمت کو تو معاف کرنے کا حکم دیااور خوداُس کو معاف نہ کیا ،اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول وفعل داڑھی کو معاف کرنا ہی معتمد اور عمل کے قابل ہے۔ اس میں نجات دنیوی و اخروی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مالا مال فرمائے۔ آمین ٭ دوسری دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا : ((لَا یَاخُذُ اَحَدُکُمْ مِنْ طُولِ لِحْیَتِہٖ وَلٰکِنْ مِنْ صدْغَیْنِ))[2] ’’تم میں سے کوئی بھی اپنی داڑھی کو لمبائی سے نہ لے (نہ کاٹے) لیکن دونوں کنپٹیوں سے(صدغین سے)۔‘‘ اس حدیث سے بھی جو داڑھی کٹوانے اور منڈھوانے کا استدلال ہے وہ وہی ہے اس لیے کہ خود یہ الفاظ بتلا رہے ہیں کہ داڑھی کی لمبائی نہ کاٹو۔ معلوم ہوا کہ مٹھ (قبضہ) اور خط بنوانا یہ سب اس حدیث سے بھی جائز نہیں ہوئے صرف صدغین (کنپٹیوں) سے کاٹنے کی اجازت دی گئی ہے جو کہ صحیح ثابت نہیں کیونکہ یہ حدیث عفیر بن معدان نے روایت کی ہے، عطاء بن ابی رباح سے اور عفیر بن معدان کے بارے میں ابن حجر(تقریب التھذیب 1، 2/29) میں لکھتے ہیں کہ (ضعیف) ’’یہ شخص ضعیف تھا‘‘…اور اسی روایت کو عفیربن
Flag Counter