اﷲکے احکامات کے مطابق سیاست کر کے حاصل کیا تھا چنانچہ اب امت کو مجتمع کرنے اور اسے دوبارہ اقتدار دلانے کیلئے نبی ہی کو آنا چاہئے۔ جب یہ بات طے ہے کہ اب کسی نبی نے نہیں آنا تو اب بتائیں کتاب و سنت میں انبیاء کے بعد امت کی سیاست ذمہ دار کس کو بتایا گیا ہے کیا خلیفہ کے علاوہ کوئی اور ہے جس پر امت مجتمع ہو سکے؟ اور یوں اس کے حالتِ مغلوبیت سے نکل کر دوبارہ اقتدار میں آنے کا اہتمام ہو سکے؟ خلیفہ مقرر کرنے کیلئے اُمت سے مشورے کی شرط بعض لوگ یہ شرط پیش کرتے ہیں کہ خلیفہ کے تقرر کیلئے امت کا مشورہ بہت ضروری ہے، اس میں کیا شک ہے کہ تقررِ خلیفہ کیلئے بھی مشورہ بہت ضروری ہے کیونکہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔ ﴿ وَشَاوِرُھُمْ فِی الْاَمْرِ﴾[آل عمران:159] ’’ اور ان سے مشورہ لیتے رہو دین کے کام میں۔‘‘ یہاں ایک اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ مشورہ کتنے افراد سے کرنا ہے، اس حوالے سے بھی اﷲتعالیٰ کے اسی ارشاد سے راہنمائی ملتی ہے۔ اﷲتعالیٰ کے ارشاد میں ’’ھم’‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کم از کم تین افراد کیلئے بولا جاتا ہے، اس بنا پر کم از کم تین افراد سے مشورہ تو لازم ٹھہرتا ہے لیکن اس سے زیادہ کی پابندی اﷲتعالیٰ نے نہیں لگائی۔ اب امت کے مشورے کی شرط لگانے والوں سے سوال ہے کہ وہ تقررِ خلیفہ کیلئے کتنی امت کا مشورہ ضروری سمجھتے ہیں، پوری کا؟ آدھی کا؟ یا اس سے تھوڑی کم کا؟ اور کتاب و سنت کی کس دلیل کی بنیاد پر۔ حقیقت یہ ہے کہ تقرر خلیفہ کیلئے زیادہ سے زیادہ صرف اتنے ہی افراد کے مشورے کی ضرورت ہے کہ اس حوالے سے اﷲکے حکم کی اطاعت میں کمی نہ رہ جائے۔ |