درج بالا پہلی آیت سے حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جب لوگ دین میں تفرق اختیار کرتے ہیں تو اپنے اپنے تفرق کی اقتداء میں متفرق ہو جاتے ہیں اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک لوگ اﷲکی مقرر کردہ سیدھی راہ ’’ صراطِ مستقیم‘‘ پر چلتے رہتے ہیں ایک رہتے ہیں لیکن جب وہ صراطِ مستقیم سے ہٹ کر دوسرے راستوں کو اختیار کرتے ہیں۔ تو الگ الگ راستوں پہ ہو جانے کی بنا پر متفرق ہو جاتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ کی وحی سے دیکھا جانا چاہئے کہ وہ ’’ صراطِ مستقیم‘‘ کیا ہے جس پر لوگ چلتے رہیں تو ایک رہتے ہیں، جسے سورۃ فاتحہ میں انعام یافتہ لوگوں کا راستہ کہا گیا ہے اور جس کی دعا ہم ہر نماز میں یوں کرتے ہیں کہ:۔ ﴿ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ o اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتُ عَلَیْھِمْ﴾ [الفاتحہ:4…7] ’’ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ، دکھا ہمیں صراطِ مستقیم (راستہ سیدھا) ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا﴾ ’’صراطِ مستقیم‘‘ کسی اور کی اطاعت نہ کرنا اور صرف اﷲاور رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کتاب وسنت) کی اطاعت کرنا اﷲتعالیٰ کے ارشادات ہیں کہ: ﴿ اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یٰبَنِیْ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo وَّاَنِ اعْبُدُوْنِی ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ﴾ [یٰس:60…61] ’’ اے اولادِ آدم!کیا میں نے تمہیں ہدایت نہیں کی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا بلاشبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ صرف میری عبادت کرنا یہی صراطِ مستقیم ہے۔‘‘ ﴿ وَّلَھَدَیْنَھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا o وَمَنْ یُّطِعَ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ |