Maktaba Wahhabi

513 - 566
’’ مجھے قیامت کے دن لایا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مجھ سے پوچھے گا: تم یہ بات کیوں کہتے تھے کہ قاتل کبھی بھی جہنم سے نہیں نکالا جائے گا؟ تو میں اللہ تعالیٰ سے کہوں گا: اے اللہ تعالیٰ !تونے ہی تو فرمایا ہے: ﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤ ہٗ جَہَنَّمَ خٰلِدًا فِیْہَا﴾ (النساء:۹۳) ’’اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔‘‘ سیّدنا قریش بن انس اس وقت اس مجلس میں موجود تھے، اور حاضرین مجلس میں سے سب سے کم عمر تھے۔ کیا تم نے غور نہیں کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ فرمادیا کہ میں نے تو یہ بھی فرمایا تھا: ﴿ إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ﴾ (النساء:۱۱۶) ’’اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔‘‘ ’’ پھر تمہیں کہاں سے پتہ چلا کہ میں نہ ہی چاہوں گا ، او ر نہ ہی مغفرت کروں گا؟ تو عمرو سے اس کا کوئی جواب نہ بن پڑا۔‘‘[1] ٭ایسے ہی عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ کو خوارج کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے بھیجا۔ عون بن عبد اللہ رحمہ اللہ نے خوارج سے کہا:(چونکہ خوارج مسلمان حکمرانوں کو ظلم کی وجہ سے کافر قرار دیتے تھے )۔ تم ایسے آدمی کی تلاش میں تھے جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسے کام کرے۔ مگر جب عمر بن عبد العزیز آئے تو تم لوگ سب سے پہلے ان سے دور بھاگ گئے؟
Flag Counter