زبانوں سے نقل کیا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴾ (الزخرف:۵۸)
’’اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ جھگڑالو ہیں۔‘‘
باطل پرمناظرہ ومجادلہ کرنے والے بہت ہی زیادہ جھگڑا کرنے والے ہوتے ہیں۔
سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: عبد اللہ بن زبعری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اور کہنے لگا: ’’ تم یہ خیال کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ آیت نازل کی ہے:
﴿ إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ﴾ (الانبیاء:۹۸)
’’تم اور اللہ کے سوا جن جن کی تم عبادت کرتے ہو، سب دوزخ کا ایندھن بنو گے، تم سب دوزخ میں جانے والے ہو۔‘‘
ابن زبعری نے کہا: ’’ میں نے سورج اور چاند اور ملائکہ کی پوجا کی ہے ، اور [اللہ کے انبیاء کرام علیہم السلام ] سیّدنا عزیر اور سیّدنا عیسیٰ کی پوجا کی ہے ، تو کیا یہ سارے ہمارے معبودوں کے ساتھ جہنم میں ہیں؟ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]:
﴿ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (57) وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴾ (الزخرف: ۵۷- ۵۸)
’’اور جب ابن مریم کی مثال بیان کی گئی تو اس سے تیری قوم (خوشی سے) چیخنے لگی ہے۔اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا
|