Maktaba Wahhabi

484 - 566
ہوتا ہے کہ کہیں اس کا ساتھی لغزش نہ کھاجائے۔ اور آج کل آپ لوگ جب مناظرہ کرتے ہیں تو آپ کی حالت یہ ہوتی ہے کہ تم میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کا فریق مخالف ہار جائے۔ (اور غلطی کر بیٹھے)۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے: ’’ میں نے جب بھی کسی سے مناظرہ کیا تو صرف خیر خواہی کی غرض سے کیا۔‘‘[1] اور نہ ہی کبھی کسی سے مناظرہ کرتے ہوئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرا ساتھی غلطی کر کے پھر جائے۔ مقصود یہ ہے کہ کبھی بھی مناظرہ میں اس لیے حصہ نہیں لیا کہ ان کا مخالف فریق غلطی کا شکار ہو جائے (اور آپ جیت جائیں)۔ بلکہ ان کا مقصد تو حق بات تک پہنچنا ہوتا تھا خواہ وہ اپنے پاس ہو یا کسی دوسرے کے پاس۔ اور یہ بھی منقول ہے کہ کچھ اہل علم کا ایسے مسئلہ میں مناظرہ ہوگیا جس میں دو رائے تھیں۔ امام شافعی نے دوسرے کی رائے کو ترجیح دی۔ اس دوسرے عالم مباحثہ کے امام شافعی کے قول کی طرف رجوع کرلیا۔ ان میں سے ہر ایک عالم دوسرے کی رائے پر مطمئن اور قانع ہوگیا، اور اس عجیب وغریب نتیجہ پر مناظرہ ختم ہوگیا۔ ساتویں شرط:… مناظر کو بردباری اور صبر کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ صبر و تحمل کے بغیر ایسے چھوٹے چھوٹے مباحثے بڑا طول پکڑ لیتے ہیں ، اور معاملہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ آٹھویں شرط:… ’’مناظر کو چاہیے کہ تحمل اور دور اندیشی سے کام لے جلدبازی نہ کرے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ اگر دوسرا انسان اپنے پورے دلائل پیش کردے ، توصرف اس کے دلائل پیش کرنے سے ہی نقاش ختم ہوجائے۔اور اس پر رد کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔ پس مناظر کو چاہیے کہ وہ صبر کرے اوراپنے فریق ثانی کو اچھی طرح دلائل پیش کر لینے دے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے ذہن میں اس مسئلہ کی کوئی خاص صورت ہو، اور جب وہ
Flag Counter