ساتھ جب کوئی شوہر اپنی کسی بیوی کے حق میں کوتاہی کرے، تو اسے حاکم کے پاس شکوہ کرنے کا بھی حق حاصل ہے، اگر شوہر کی کوتاہی ثابت ہوجائے، تو اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ اسے دستور کے مطابق اپنے پاس رکھو یا بطریق شائستہ اسے جدا کردو۔
اس موضوع کے بارے میں گفتگو ختم کرنے سے قبل ہم قاری کی توجہ ڈاکٹر غوستاف لوبون کی اس بات کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ’’ ہمیں نہیں معلوم کہ کسی نظام پر اس قدر ملامت کی گئی ہو، جتنی تعدد ازواج کے اصول پر ملامت کی گئی ہے، اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ کسی اصول کے بارے میں یورپی لوگوں نے اس قدر غلطی کی ہو، جس طرح اس اصول کے سمجھنے میں انھوں نے غلطی کی ہے۔ یورپ کے اکثر مؤرخین کا خیال ہے کہ تعدد ازواج کا اصول اسلام میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ قرآنِ مجید کے پھیلنے کا سبب ہے، جیسا کہ یہ مشرقی لوگوں کے انحطاط کا بھی سبب ہے۔ ان عجیب و غریب خیالات کی وجہ سے ناراضی کی آوازیں بھی اُٹھیں، ان مصیبت زدہ عورتوں پر رحمت کی وجہ سے جنھیں گھروں میں بند کردیا گیا ہے، جن کی نگہداشت غلیظ خصی لوگ کرتے ہیں اور جن کو اس وقت قتل کردیا جاتا ہے، جب ان کے مالک انھیں ناپسند کرتے ہیں۔ ‘‘
یہ مغربی مفکر اس زعم باطل کی تردید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ یہ صورتِ حال جو بیان کی گئی ہے حق کے خلاف ہے اور مجھے اُمید ہے کہ جو قاری یورپی اوہام کو ایک طرف رکھتے ہوئے یہ فصل پڑھے گا، اسے معلوم ہوجائے گا کہ تعدد ازواج کا مشرقی نظام ایک پاکیزہ نظام ہے، جو اقوام اس کی قائل ہیں، یہ نظام ان کی اخلاقی سطح کو بلند کردیتا ہے، خاندان کے باہمی ربط میں اضافہ ہوجاتا ہے، عورت کو ایسا احترام اور ایسی سعادت عطا کرتا ہے، جس کا یورپ میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا … مشرقی لوگوں کے ہاں شرعی طور پر جائز تعدد ازواج کے اصول کو یورپی لوگوں کے ہاں خفیہ طور پر
|