ساتھ مشروط ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰی اَلاَّ تَعُوْلُوْا۔ [1]
(اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ(سب عورتوں سے)یکساں سلوک نہ کرسکوگے تو ایک عورت(کافی ہے)یا لونڈی جس کے تم مالک ہو، اس سے تم بے الفاظی سے بچ جاؤ گے۔)
شیخ سعدی رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ تعدد ازواج اس صورت میں جائز ہے، جب مرد کو اپنے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ ظلم و زیادتی نہیں کرے گا، نیز اسے تمام عورتوں کے حقوق ادا کرنے کے بارے میں اپنے آپ پر پورا اعتماد ہو، اگر اسے اس بارے میں ذرا بھی اندیشہ ہو تو اسے صرف ایک بیوی یا باندی پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ [2] نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تمام بیویوں کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی مرد کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں عدل نہ کرے، تو روزِ قیامت وہ اس طرح آئے گا کہ اس کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔ [3] اس کے ساتھ
|