کہ ان کے رشتہ دار کے ساتھ اہل طائف نے بد سلوکی کی ہے۔ اپنے غلام عداس کو بلایا۔
عداس نینویٰ کا رہنے والا عیسائی تھا۔ اسے انگوروں کے چند خوشے دے کر کہا:اسے ان مہمانوں کے پاس لے جاؤ۔ عداس کی خوش قسمتی کے کیاکہنے، اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے کی سعادت مل رہی تھی۔ عداس انگور لے کر آیا تو اس نے دیکھا اور سنا کہ اللہ کے رسول انگوروں کی طرف ہاتھ بڑھا کر فرمارہے ہیں:(بِسْمِ اللّٰہِ) اور پھر کھانا شروع کردیا۔عداس معزز مہمان کی طرف تعجب بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ (بِسْمِ اللّٰہِ) کا کلمہ یہاں کے لوگ تو نہیں بولتے۔ وہ تو اللہ کے نام سے کھانے کا آغاز نہیں کرتے۔
عداس کہنے لگا:یہ جملہ تواس شہر کے لوگ نہیں بولتے۔ ارشاد فرمایا:’’تم کہاں کے رہنے والے ہو اورتمھارا دین کیا ہے؟‘‘ عداس نے کہا:میں نینوی کا رہنے والا ہوں اور عیسائی ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پوچھ رہے ہیں:’’اچھا تو تم مرد صالح یونس بن متّٰی کے شہر کے رہنے والے ہو۔‘‘
عداس کو بڑا تعجب ہوا ، اس نے سوال کیا:آپ یونس بن متیّٰ کو کیسے جانتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:’’وہ میرے بھائی تھے۔ میرے اور ان کے درمیان نبوت کا رشتہ ہے۔ وہ بھی اللہ کے نبی تھے اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں۔‘‘ عداس نے یہ سنا تواللہ کے رسول پر جھک پڑا اور آپ کے سر اور ہاتھ پاؤں کو بوسہ دیا۔
دور بیٹھے ہوئے عتبہ اور شیبہ یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ عداس کی قسمت بہت اچھی تھی، اس کے نصیب جاگ اٹھے ، وہ بے اختیار کہہ رہا تھا:( أَشْہَدُ أَنَّکَ عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُولُ اللّٰہِ) ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے بندے اوراللہ کے رسول ہیں۔‘‘
قارئین کرام! طائف والوں کا سلوک آپ کی توقع کے کہیں خلاف تھا۔ اس پریشانی کے عالم میں آپ نے اپنے رب سے رجوع کیا اوراسی سے مدد مانگی۔ اپنی امت کو سبق دیا کہ اگر کوئی مشکل وقت آئے تو صرف اور صرف اپنے رب سے رجوع کرنا ہے اور اسی سے مدد مانگنی ہے۔ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم باغ سے نکلے تو غم والم کی شدت سے طبیعت نڈھال اور دل پاش پاش تھا۔ قرن المنازل کا مقام کوئی زیادہ دور نہیں
|