قارئین کرام! مگر وہ شریف لوگ نہ تھے، انھوں نے نہایت گھٹیا طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ نہ صرف علاقے میں منادی کروائی بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو اوباشوں اور آوارہ گردوں کو شہ دے کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا اور انھیں ہدایت کی کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کریں اور ان کا راستہ روکیں۔
طائف کے در و دیوار یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہورہے ہیں ۔ادھر طائف کے آوارہ گرد گالیاں دیتے، تالیاں بجاتے اور شور مچاتے آپ کے پیچھے لگ گئے ہیں۔ وہ راستے کے دونوں جانب کھڑے ہوگئے، بات گالیوں اور بد زبانیوں سے آگے بڑھ کر پتھر چلانے پر آ گئی۔ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارنے لگے۔ سنگ باری تیز کردی، آپ کی پنڈلیوں پر گہرے زخم لگ گئے، ان سے خون بہنے لگا۔ نعلین مبارک خون میں تر بتر ہوگئے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اپنے جسم کو ڈھال بنا کر آپ کو پتھروں سے بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی محفوظ نہیں رہے، ان کا سر بھی پھٹ گیا۔
سیرت نگاروں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم آبادی سے نکلے تو بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ کو اٹھا کر قریب ہی پانی کے ایک چشمے پرلے گئے۔ زخموں کو پانی سے دھونے کی کوشش کی۔ نعلین مبارک اتارنا چاہے تو وہ خون سے اس طرح جم چکے تھے کہ اتارنا مشکل تھا۔ بنو امیہ کے سردار عتبہ بن ربیعہ کا باغ قریب ہی تھا۔ یہ باغ طائف سے کم وبیش پانچ کلو میٹر دور ہے۔ راقم الحروف نے اس باغ کو دیکھا ہے ۔ جب میں نے دیکھا تویہ ان دنوں بڑا سرسبز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ میں پناہ لی۔ اس وقت اوباش اور آوارہ گرد بھی واپس ہوگئے تھے۔ عتبہ اپنے بھائی شیبہ کے ساتھ مکہ مکرمہ سے آیا ہوا تھا۔ وہ بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ یہ کافر تھے مگر مکارم اخلاق تو ان کا وصف تھا۔ یوں بھی رشتہ داری تھی۔ انھیں غیرت آئی
|